You are reading a tafsir for the group of verses 96:8 to 96:9
ان الى ربك الرجعى ٨ ارايت الذي ينهى ٩
إِنَّ إِلَىٰ رَبِّكَ ٱلرُّجْعَىٰٓ ٨ أَرَءَيْتَ ٱلَّذِى يَنْهَىٰ ٩
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

آیت 8{ اِنَّ اِلٰی رَبِّکَ الرُّجْعٰی۔ } ”یقینا تجھے اپنے رب کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔“ گویا انسان کو راہ راست پر رکھنے کا جو موثر ترین علاج ہے وہ ہے عقیدئہ آخرت پر پختہ یقین۔ یعنی یہ یقین کہ ایک دن اسے اللہ تعالیٰ کی عدالت میں پیش ہو کر اپنے ایک ایک عمل کا حساب دینا ہے اور وہ عدالت بھی ایسی ہے جہاں ذرّہ برابر بھی کوئی چیز چھپائی نہیں جاسکے گی : { فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًا یَّرَہٗ - وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَّرَہٗ۔ } الزلزال ”جس کسی نے ذرّے کے ہم وزن نیکی کمائی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا۔ اور جس کسی نے ذرّے کے ہم وزن برائی کی ہوگی وہ بھی اسے دیکھ لے گا“۔ گویا یہ عقیدئہ آخرت پر پختہ یقین اور قیامت کے دن کی پیشی کا خوف ہی ہے جو انسان کے اندر خود احتسابی کا احساس اجاگر کرتا ہے۔ یہی یقین اور خوف اسے خلوت و جلوت میں ‘ اندھیرے اجالے میں اور ہر جگہ ‘ ہر حال میں غلط روی اور ظلم وتعدی کے ارتکاب سے باز رکھتا ہے۔ ورنہ انسان کی سرشت ایسی ہے کہ جس مفاد تک اس کا ہاتھ پہنچتا ہو اسے سمیٹنے کے لیے وہ حلال و حرام اور جائز و ناجائز کی حدود کی پروا نہیں کرتا۔ اب اگلی آیت سے اس سورت کا تیسرا حصہ شروع ہو رہا ہے۔ سورة المدثر کے ساتھ اس سورت کے مضامین کی مشابہت کا انداز ملاحظہ ہو کہ سورة المدثر کے تیسرے حصے میں ولید بن مغیرہ کے کردار کی جھلک دکھائی گئی ہے ‘ جبکہ یہاں اس کے مقابل ابوجہل کے طرزعمل کا نقشہ پیش کیا گیا ہے۔