undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

(آیت) ” وَمَا الْحَیَاۃُ الدُّنْیَا إِلاَّ لَعِبٌ وَلَہْوٌ وَلَلدَّارُ الآخِرَۃُ خَیْْرٌ لِّلَّذِیْنَ یَتَّقُونَ أَفَلاَ تَعْقِلُونَ (32)

” دنیا کی زندگی تو ایک کھیل اور تماشا ہے ‘ حقیقت میں آخرت کا مقام ان لوگوں کے لئے بہتر ہے جو زیاں کاری سے بچنا چاہتے ہیں ۔ پھر کیا تم لوگ عقل سے کام نہ لوگے ؟ “

اللہ کے پیمانے کے مطابق حیات دنیا اور حیات اخروی کا یہ وزن ہے اور یہ حقیقی وزن ہے ۔ اس چھوٹے سے کرے پر جس کا نام زمین ہے ۔ ایک گھنٹے کی زندگی کی کیا حقیقت ہو سکتی ہے ۔ یہ لہو ولعب ہی ہو سکتا ہے ۔ خصوصا جب اس کا موازنہ عالم آخرت کی طویل اور ابدی زندگی سے کیا جائے ۔ ظاہر ہے کہ عالم آخرت کے مقابلے میں اسے لہو ولعب ہی کہا جاسکتا ہے اس لئے کہ وہ ابدی اور دوامی زندگی ہے اور جنت بہت ہی کشادہ ہے ۔

یہ تو ہے اس دنیا کی حقیقی قدروقیمت بمقابلہ آخرت لیکن اسلامی تصور حیات نے اس مختصر دنیا کو بھی مہمل نہیں چھورا اور نہ ہی اس کے ساتھ منفی رویہ اختیار کیا ہے اور نہ ہی ترک دنیا کی تعلیم دی ہے ۔ تصوف اور زاہدانہ زندگی کے بعض مناظر میں جو ترک دنیا اور رہبانیت نظر آتی ہے اس کا سرچشمہ اسلامی تصور حیات نہیں ہے ۔ یہ چیزیں اسلامی تصور حیات میں کنیسہ اور رہبانیت کے راستے داخل ہوئی ہیں یا اہل فارس کے بعض اداروں سے در آئی ہیں یا بعض ہندوانہ اور یونانی تصورات کی وجہ سے آئی ہیں ۔ اس وقت جب دوسرے معاشروں کی ثقافتوں کو اسلامی معاشرے میں منتقل کیا گیا ۔

اسلامی تصور حیات کے مطابق عملی زندگی کا مکمل نمونہ صحابہ کرام تھے ۔ انہوں نے دنیا کے حوالے سے کوئی منفی رویہ اختیار نہیں کیا اور نہ ہی ترک دنیا کا راستہ اختیار کیا ۔ انہوں نے اپنے نفوس کے اندر پائے جانے والے شیطانی نفس پر قابو پایا ۔ انہوں نے کرہ ارض پر غالب نظام جاہلیت کو مغلوب کیا۔ ان نظاموں میں حق حاکمیت خدا کے بجائے دوسرے سرداروں اور بادشاہوں کو حاصل تھا ۔ صحابہ کرام ؓ اجمعین میزان الہی کے مطابق اس دنیاوی زندگی کی اصل قدر و قیمت بھی سمجھتے تھے ۔ انہوں نے اپنی عملی زندگی میں آخرت کے لئے کام کیا اور اس دنیا کے حوالے سے بھی مثبت رویہ کا اختیار کیا ۔ انہوں نے معاملات حیات میں سرگرمی سے حصہ لیا اور جوش و خروش کے ساتھ معاملات دنیا طے کئے اور دنیاوی زندگی کے ہر پہلو پر انہوں نے کام کیا ۔ لیکن صحابہ کرام ؓ اجمعین کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے دنیا کی حقیقت کی تعلیم نے بہت ہی فائدہ دیا ۔ اس لئے وہ دنیا ہی کے بندے نہ بنے بلکہ انہوں نے آخرت کے لئے بھی کام کیا ۔ وہ دنیا پر سوار تھے ‘ دنیا ان کے اوپر سوار نہ تھی ۔ انہوں نے دنیا کو اپنا غلام بنا کر اسے ذلیل کیا اور خود دنیا کے غلام بن کر انہوں نے دنیا کی سلطنت کی ماتحتی اختیار نہ کی ۔ وہ اس دنیا پر اللہ کی جانب سے نائب اور خلیفہ رہے انہوں نے حق خلافت خوب ادا کیا اور اس دنیا کی خوب تعمیر کی ۔ اس کی خوب اصلاح کی لیکن انہوں نے یہ سب رضائے الہی کے لئے کیا اور اجر اخروی کی امید پر کیا ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ دنیا کے میدان میں بھی اہل دنیا پر ستوں سے سے آگے بڑھ گئے اور آخرت کے میدان میں تو وہ تھے ہی ان سے آگے ۔

آخرت بیشک پردہ غیب میں مستور ہے اس لئے جو شخص آخرت پر ایمان رکھتا ہے اس کی سوچ وسیع اور اس کا ادراک بلند ہوتا ہے اور جو لوگ عقل رکھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ یہ اچھا ہے ۔ ” حقیقت میں آخرت ہی کا مقام ان لوگوں کے لئے بہتر ہے جو زیاں کاری سے بچنا چاہتے ہیں ۔ پھر کیا تم عقل سے کام نہ لوگے ؟ “

جو لوگ آج کے دور میں آخرت کے منکر ہیں اور اس لئے منکر ہیں کہ وہ پردہ غیب میں مستور ہے ‘ وہ دراصل پرلے درجے کے جاہل ہیں حالانکہ وہ دعوی علم کا کرتے ہیں اور یہ لوگ جس علم کا دعوی کرتے ہیں وہ انسانی علم ہے اور انسانی علم میں آج تک کوئی ایسی حقیقت سامنے نہیں آئی ہے کہ اسے آخری حقیقت کہا جاسکے ۔ اگر کوئی حقیقت سامنے آئی ہے تو وہ یہ ہے کہ ہمیں علم نہیں ہے اور غیب ہم سے مخفی ہے ۔

درس نمبر 59 ایک نظر میں :

اس سورة کی پر تلاطم موجوں میں سے اس موج میں روئے سخن حضور اکرم ﷺ کی جانب ہے ۔ اللہ تعالیٰ اس میں حضور اکرم ﷺ کی دلجوئی فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ اس رویے سے پیریشان نہ ہوں جو آپ ﷺ کی جانب آپ ﷺ کی قوم نے اختیار کر رکھا ہے ۔ آپ ﷺ کی قوم آپ ﷺ کو صادق وامین مانتی ہے ‘ اس لئے یہ لوگ آپ ﷺ کو جھوٹا نہیں سمجھتے بلکہ وہ اصرار اس بات پر کرتے ہیں کہ وہ اللہ کی آیات کو نہ مانیں گے اور ایمان نہ لائیں گے ۔ اس لئے نہیں کہ وہ حضور ﷺ کو جھوٹا سمجھتے ہیں بلکہ اس لئے کہ کچھ دوسری وجوہات سے وہ اسلامی نظریہ حیات کا انکار کرتے ہیں ۔ آپ کی تسلی کے لئے آپ کے سابق بھائیوں اور رسولوں کے قصے اور واقعات کی طفف بھی اشارہ کیا جاتا ہے کہ ان کو آپ سے زیادہ اذیت دی گئی لیکن انہوں نے صبر سے کام لیا اور مشکلات کو انگیز کیا ۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے انہیں فتح و کامرانی عطا فرمائی اور یہ سب کچھ سنت الہیہ کے اصولوں کے مطابق ہوا جس میں کبھی کوئی تبدیلی نہ ہوگی ۔ جب حضور ﷺ کو تسلی اور اطمینان دلایا جا چکا تو پھر آپ کے سامنے اللہ تعالیٰ دعوت اسلامی کے بارے میں ایک اہم حقیقت برائے غور رکھتے ہیں۔ وہ یہ کہ دعوت اسلامی کا کام سنت الہیہ کے مطابق اس جہاں میں چلتا رہتا ہے اور داعی کا کردار اس میں صرف یہ ہوتا ہے کہ وہ دعوت کو مخاطبین تک پہنچائے اور بات کرتا چلا جائے ۔ تمام امور کا اختیار اللہ کے ہاتھ میں ہے ‘ وہ اس جہان کو جس طرف چاہے موڑ دے ۔ داعی کا کام بس صرف یہ ہے کہ وہ احکام الہی کے مطابق اپنی جدوجہد جاری رکھے اور ایک قدم بھی اپنی راہ سے ادھر ادھر نہ ہو اور خود اللہ کو تجاویز دینا نہ شروع کر دے ۔ اگر داعی بذات خود حضور اکرم ﷺ ہوں تو انہیں بھی اس کی اجازت نہیں ہے ۔ نہ داعی کا یہ کام ہے کہ وہ مخالفین اور مکذبین کی تجاویز پر غور کرے نہ عوام الناس کے کام پر غور کرے کہ دعوت کا منہاج یہ ہونا چاہئے اور نہ ہی وہ انکی جانب سے دلائل ومعجزات کا مطالبہ مانے ۔ اس لئے کہ زندہ دل لوگ تو اس کی بات سنیں گے اور قبول کریں گے لیکن جن لوگوں کے دل مرچکے ہیں وہ ہر گز اس کی بات قبول کرنے کے لئے تیار نہ ہوں گے ۔ یہ اللہ کا کام ہے کہ وہ لوگوں کو اسی طرح مردہ رہنے دیتا ہے یا انہیں زندگی بخشتا ہے ۔ قیامت اور حشر تک اللہ کی یہ سنت جاری رہے گی ۔

یہ لوگ اقوام سابقہ کی طرح آیات ومعجزات طلب کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اگرچہ ہر قسم کے معجزات کے صدور پر قادر ہے ‘ لیکن وہ حکیم ہے ‘ اور وہ ان معجزات کا صدور اپنی حکمت کی بناء پر نہیں کرتا ۔ اب حضور ﷺ سے کہا جاتا ہے کہ اگر آپ پر یہ صورت حال شاق گزر رہی ہے تو پھر اگر آپ کے اندر کوئی طاقت ہے تو آپ خود کسی معجزے کا بندوبست کریں ۔ اللہ تو تمام مخلوقات کا خالق ہے ۔ وہ تمام مخلوق کے بھیدوں کا جاننے والا ہے ‘ ان کے مزاج اور صلاحیتوں کو خوب جانتا ہے ۔ وہ اپنی حکمت کے تحت جھٹلانے والوں کو اندھیروں میں چھوڑتا ہے جس طرح گونگے اور بہرے ہوتے ہیں ۔ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ضلالت میں چھوڑ دیتا ہے ۔ یہ سب امور اس کی حکمت کے تحت چلتے ہیں ۔

Maximize your Quran.com experience!
Start your tour now:

0%