undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

آیت 4 { اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِہٖ صَفًّا کَاَنَّہُمْ بُنْیَانٌ مَّرْصُوْصٌ۔ } ”اللہ کو تو محبوب ہیں وہ بندے جو اس کی راہ میں صفیں باندھ کر قتال کرتے ہیں ‘ جیسے کہ وہ سیسہ پلائی دیوار ہوں۔“ آج کے زمانے میں ”بنیانِ مرصوص“ reinforced concrete wall کو کہا جائے گا۔ ایسی دیواریں بڑے بڑے dams کے لیے بنائی جاتی ہیں۔ البتہ پرانے زمانے میں اگر کسی دیوار کو غیر معمولی طور پر مضبوط کرنا مقصود ہوتا توچنائی کرنے کے بعد اس کے اندر پگھلا ہوا تانبا ڈالا جاتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اردو میں عام طور پر ”بنیانِ مرصوص“ کا ترجمہ ”سیسہ پلائی ہوئی دیوار“ کے الفاظ میں کیا جاتا ہے۔ پرانے زمانے میں اس طریقہ سے ”سیسہ پلائی ہوئی دیوار“ بنانے کا تصورسورۃ الکہف کی آیت 96 میں بھی ملتا ہے۔ ذوالقرنین بادشاہ نے یاجوج ماجوج کے حملوں سے حفاظت کے لیے لوہے کے تختوں کی مدد سے دیوار کھڑی کرنے کے بعد حکم دیا تھا : { اٰ تُوْنِیْٓ اُفْرِغْ عَلَیْہِ قِطْرًا۔ } ”اب لائو میں اس پر پگھلا ہوا تانبا ڈال دوں“۔ بہرحال یہاں ”بنیانِ مرصوص“ سے مراد میدانِ جنگ میں مجاہدین کی ایسی صفیں ہیں جن میں کوئی رخنہ یا خلا نہ ہو اور ایک ایک مجاہد اپنی جگہ پر اس قدر مضبوطی سے کھڑا ہو کہ دشمن کے لیے صف کے کسی ایک حصے کو بھی دھکیلنا ممکن نہ ہو۔ یہاں ضمنی طور پر یہ مسئلہ بھی سمجھ لیں کہ نماز کے لیے ہماری صف بندی کی بھی یہی کیفیت ہونی چاہیے۔ ایک صف کے تمام نمازیوں کو کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہونا چاہیے اور ان کے پیروں کے محاذات بھی ایک ہونے چاہئیں ‘ یعنی تمام لوگوں کے پائوں ایک سیدھ میں ہوں تاکہ صف سیدھی رہے۔ دو آدمیوں کے درمیان خلا بالکل نہیں ہونا چاہیے۔ حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ جماعت کی صف میں دو نمازیوں کے درمیان خلا کی جگہ سے شیطان گزر جاتا ہے۔ جماعت کے لیے صف بندی کا اہتمام کرانا دراصل امام کی ذمہ داری ہے ‘ لیکن مقام افسوس ہے کہ ہمارے اکثر ائمہ مساجد اس طرف کوئی توجہ ہی نہیں دیتے۔ البتہ اس ضمن میں ضرورت سے زیادہ شدت بھی مناسب نہیں ‘ جیسے بعض لوگ غیر معمولی طور پر ٹانگیں پھیلا کر دوسرے نمازی کے پائوں پر اپنا پائوں چڑھا دیتے ہیں اور دوسروں کے لیے کو فت کا باعث بنتے ہیں۔ بہرحال ہمارے لیے اس آیت کا اصل پیغام یہ ہے کہ اسلام میں سب سے بڑی نیکی اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے پسندیدہ عمل ”قتال فی سبیل اللہ“ ہے۔ فلسفے کی اصطلاح میں سب سے اعلیٰ خیر یا نیکی کو summum bonum کہتے ہیں۔ ہر فلسفہ اخلاق میں ایک ”خیر اعلیٰ“ summum bonum یا بلند ترین نیکی highest virtue کا تصور ہوتا ہے۔ چناچہ اس آیت کے اصل پیغام کو اگر فلسفہ کی زبان میں بیان کریں تو یوں کہیں گے کہ اسلام کے نظام فکر اور اس کے نظریہ اخلاق میں بلند ترین نیکی یا ”خیر اعلیٰ“ summum bonum قتال فی سبیل اللہ ہے۔ چناچہ جو کوئی اللہ کا قرب حاصل کرنا چاہتا ہو اسے اپنی سب سے قیمتی متاع یعنی اپنی جان اس کی راہ میں قربانی کے لیے پیش کرنا ہوگی۔ جو شخص اس قربانی کے لیے تیار نہ ہو اسے چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی محبت و قربت کا دعویٰ بھی نہ کرے۔ بقول غالب ؔ ع ”جس کو ہو جان و دل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں !“ یہاں سورت کے پہلے حصے کا مطالعہ مکمل ہوگیا۔ اب آئندہ چار آیات میں بنی اسرائیل کا ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ کے جلیل القدر پیغمبروں کے ساتھ ان کا طرزعمل کیا تھا۔ یہود کی تاریخ کے حوالے سے دراصل مسلمانوں کو متنبہ کیا جا رہا ہے کہ قول و عمل کا تضاد اور ایمان کے عملی تقاضوں کی ادائیگی سے پہلوتہی ہی وہ اصل جرم تھا جس کی پاداش میں یہود اس مقام اور منصب سے معزول کردیے گئے جس پر اب تم فائز کیے گئے ہو۔