You are reading a tafsir for the group of verses 60:10 to 60:11
يا ايها الذين امنوا اذا جاءكم المومنات مهاجرات فامتحنوهن الله اعلم بايمانهن فان علمتموهن مومنات فلا ترجعوهن الى الكفار لا هن حل لهم ولا هم يحلون لهن واتوهم ما انفقوا ولا جناح عليكم ان تنكحوهن اذا اتيتموهن اجورهن ولا تمسكوا بعصم الكوافر واسالوا ما انفقتم وليسالوا ما انفقوا ذالكم حكم الله يحكم بينكم والله عليم حكيم ١٠ وان فاتكم شيء من ازواجكم الى الكفار فعاقبتم فاتوا الذين ذهبت ازواجهم مثل ما انفقوا واتقوا الله الذي انتم به مومنون ١١
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓا۟ إِذَا جَآءَكُمُ ٱلْمُؤْمِنَـٰتُ مُهَـٰجِرَٰتٍۢ فَٱمْتَحِنُوهُنَّ ۖ ٱللَّهُ أَعْلَمُ بِإِيمَـٰنِهِنَّ ۖ فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِنَـٰتٍۢ فَلَا تَرْجِعُوهُنَّ إِلَى ٱلْكُفَّارِ ۖ لَا هُنَّ حِلٌّۭ لَّهُمْ وَلَا هُمْ يَحِلُّونَ لَهُنَّ ۖ وَءَاتُوهُم مَّآ أَنفَقُوا۟ ۚ وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ أَن تَنكِحُوهُنَّ إِذَآ ءَاتَيْتُمُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ ۚ وَلَا تُمْسِكُوا۟ بِعِصَمِ ٱلْكَوَافِرِ وَسْـَٔلُوا۟ مَآ أَنفَقْتُمْ وَلْيَسْـَٔلُوا۟ مَآ أَنفَقُوا۟ ۚ ذَٰلِكُمْ حُكْمُ ٱللَّهِ ۖ يَحْكُمُ بَيْنَكُمْ ۚ وَٱللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌۭ ١٠ وَإِن فَاتَكُمْ شَىْءٌۭ مِّنْ أَزْوَٰجِكُمْ إِلَى ٱلْكُفَّارِ فَعَاقَبْتُمْ فَـَٔاتُوا۟ ٱلَّذِينَ ذَهَبَتْ أَزْوَٰجُهُم مِّثْلَ مَآ أَنفَقُوا۟ ۚ وَٱتَّقُوا۟ ٱللَّهَ ٱلَّذِىٓ أَنتُم بِهِۦ مُؤْمِنُونَ ١١
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

اب سیاق سورت کی طرف آتے ہیں۔ اب مومنات مہاجرات کی بات۔

یایھا الذین .................................... بہ مومنون (0 : 11) 06 : 01۔ 11)

” اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، جب مومن عورتیں ہجرت کرکے تمہارے پاس آئیں تو (ان کے مومن ہونے کی) جانچ پڑتال کرلو ، اور ان کے ایمان کی حقیقت تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ پھر جب تمہیں معلوم ہوجائے کہ وہ مومن ہیں تو انہیں کفار کی طرف واپس نہ کرو۔ نہ وہ کفار کے لئے حلال ہیں اور نہ کفار ان کے لئے حلال۔ ان کے کفار شوہروں نے جو مہران کو دیئے تھے وہ انہیں پھیر دو ۔ اور ان سے نکاح کر لنے میں تم پر کوئی گناہ نہیں جب کہ تم ان کے مہر ان کو ادا کردو۔ اور تم خود بھی کافر عورتوں کو اپنے نکاح میں نہ روکے رہو۔ جو مہر تم نے اپنی کافر بیویوں کو دیئے تھے وہ تم واپس مانگ لو۔ اور جو مہر کافروں نے اپنی مسلمان بیویوں کو دیئے تھے انہیں وہ واپس مانگ لیں۔ یہ الہل کا حکم ہے ، وہ تمہارے درمیان فیصلہ کرتا ہے اور وہ علیم و حکیم ہے۔ اور اگر تمہاری کافر بیویوں کے مہروں میں سے کچھ تمہیں کفار سے واپس نہ ملے اور پھر تمہاری نوبت آئے تو جن لوگوں کی بیویاں ادھر رہ گئی ہیں ان کو اتنی رقم ادا کر دو جو ان کے دیئے ہوئے مہروں کے برابر ہو۔ اور اس خدا سے ڈرتے رہو جس پر تم ایمان لائے ہو “۔

ان آیات کے شان نزول کے بارے میں آیا ہے کہ صلح حدیبیہ کی عبارت یوں تھی :” یہ کہ نہیں آئے گا ہم سے کوئی شخص تمہاری طرف جو تمہارے دین پہ ہو ، تو تم اسے ہماری طرف لوٹاؤ گے “۔ جب رسول اللہ ﷺ اور مسلمان ابھی حدیبیہ کے نشیبی علاقے میں تھے کہ کچھ مومن عورتیں آئیں ، یہ ہجرت کا مطالبہ کررہی تھیں اور دارالاسلام آنا چاہتی تھیں۔ قریش آگئے ، کہ ان کو مطابق معاہد واپس کریں۔ معاہدہ کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس معاہدے میں عورتوں کے بارے میں کچھ بھی نہ تھا۔ یہ تو آیات نازل ہوئیں ، جنہوں مہاجر عورتوں کو لوٹانے سے منع کردیا۔ کیونکہ عورتیں کمزور تھیں اور ان کو ان کے دین کے بارے میں فتنے میں مبتلا کیا جاسکتا تھا۔

ان کی ہجرت کے ساتھ ہی اس سلسلے کے بین الاقوامی احکام بھی نافذ ہوگئے۔ یہ قانون سازی بھی نہایت ہی منصفانہ انداز پر کی گئی اور اس میں فریق مخالف کی زیادتیوں کا کوئی خیال نہیں رکھا گیا۔ کیونکہ اسلام داخلی اور خارجی معاملات میں کوئی قانون انتقامی جذبات پر نہیں بناتا۔

اس سلسلے میں اسلام نے پہلے اقدام یہ کیا کہ ان عورتوں کے حالات کو دیکھا جائے کہ آیا وہ کس مقصد کے لئے ہجرت کررہی ہیں ؟ یہ نہ ہو کہ وہ اپنے سابق خاوندوں سے جان چھڑانا چاہتی ہوں ، یا کسی منفعت کی طلب گار ہوں ، یا یہ نہ ہو کہ وہ دارا الاسلام میں کسی محبوب کے پیچھے تو نہیں جارہی ہیں۔

حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ ان سے حلف لیا جاتا تھا کہ وہ خاوند کی دشمنی میں تو نہیں نکل آئیں۔ یہ بھی حلف لیا جاتا تھا کہ مکہ سے تنگ آکر مدینہ کی زمین کی طرف تو نکل آنا نہیں چاہتیں۔ یہ حلف لیا جاتا تھا کہ دنیا کے کسی اور مفاد کے لئے تو نہیں آگئیں۔ اور یہ حلف لیا جاتا تھا کہ وہ اللہ اور رسول کی محبت کے سوا کسی اور جذبہ کے تحت تو نہیں آگئیں ؟ اور یہ حلف لیا جاتا تھا کہ وہ اللہ اور رسول کی محبت کے سوا کسی اور جذبہ کے تحت تو نہیں آگئیں ؟ حضرت عکرمہ کہتے ہیں کہ حلف میں یہ بھی تھا کہ تم صرف اللہ اور رسول اللہ ﷺ کی محبت میں آرہی ہو ، مسلمانوں میں سے کسی شخص کے ساتھ تمہیں محبت تو نہیں ہے ، یا تم اپنے خاوند سے بھاگنا تو نہیں چاہتی ہو ؟

یہ ہوتا تھا ان کا امتحان۔ ان کے ظاہری حالات پر اعتماد کرتے ہوئے ان کے حلیفہ بیان پر اکتفا کیا جاتا تھا۔ رہا یہ معاملہ کہ ان کے دلوں میں کیا ہے تو اس سے صرف اللہ خبردار ہے۔ انسان کے لئے کوئی راہ نہیں ہے کہ وہ دلوں کے راز جان سکے۔

اللہ اعلم بایمانھن (06 : 01) ” ان کی حقیقت ایمان تو اللہ ہی جانتا ہے “۔ اگر وہ اس مضمون کا اقرار بذریعہ بیان حلفی کردیں تو پھر۔

فلا ترجعو ........................ لھن (06 : 01) ” تو انہیں کفار کی طرف واپس نہ کرو۔ نہ وہ کفار کے لئے حلال ہیں اور نہ کفار ان کے لئے حلال “۔

اصل میں اعلیٰ تعلق آگیا ہے۔ ایمانی تعلق اور اس نے تمام دوسرے تعلقات کاٹ دیئے ہیں۔ اس لئے اب کوئی ایسا تعلق باقی نہیں رہا ہے کہ اس جدانی کو جوڑ سکے۔ میاں بیوی کا تعلق تو ایسا تعلق ہے کہ اس میں دو افراد ایک دوسرے کے ساتھ گھل مل جاتے ہیں ، جڑ جاتے ہیں اور ایک مستقل اور دائمی تعلق قائم ہوجاتا ہے۔ جب زوجین کے درمیان ایمانی اتحاد نہ ہو تو زوجیت کے حقوق پورے کرنا ممکن نہیں ہے۔ ایمان دل کی اعلیٰ زندگی کا نام ہے اور اس کی جگہ کوئی جذبہ قائم مقام نہیں ہوسکتا۔ اگر ایمان کا تعلق نہ ہو تو میاں بیوی کے درمیان اتحاد اور ہم آہنگی ممکن نہیں ہے۔ نہ فریقین کے درمیان انس پیدا ہوسکتا ہے نہ یگانگت۔ جبکہ میاں بیوی کے درمیان محبت ، باہم شفقت اور انس و سکون ضروری ہے۔

ابتدائی زمانہ ہجرت میں یہ حکم نہ آیا تھا۔ مومنہ عورت اور کافر مرد کے درمیان تفریق نہ کی جاتی تھی۔ نہ مومن مرد اور کافرہ عورت کے درمیان تفریق کی جاتی تھی۔ اس لئے کہ اس دور میں اسلامی نظام معاشرت اور اسلامی سوسائٹی ابھی مستحکم نہ تھی۔ لیکن صلح حدیبیہ یا فتح حدیبیہ کے بعد ، زیادہ تر روایات کے مطابق یہ فیصلہ کردیا گیا کہ اب مومن اور کافر کے درمیان ازدواجی تعلق قائم نہ رہے۔ ازدواجی تعلق صرف مومن اور مومنات کے درمیان ہو۔ جیسا کہ عملی صورت یہ ہوگئی تھی کہ صرف ایمان کا رابطہ رہ گیا تھا اور مدینہ طیبہ میں صرف ایمانی تعلق تھا۔ اللہ اور رسول کا تعلق رہ گیا تھا ، باقی تمام قسم کے تعلقات کاٹ دیئے گئے تھے۔ بیخ وبن سے اکھاڑ کر پھینک دیئے گئے تھے۔

لیکن اس تفریق کے بعد پھر نقصان رسیدہ فریق کے لئے منصفانہ قانون سازی کی گئی۔ اگر کسی کافر خاوند کی بیوی کی جدائی کا حکم صادر ہوتا ہے تو اس نے بیوی کو جو مہر دیا تھا ، یا دوسرے اخراجات اٹھائے تھے وہ واپس کرنے ہوتے تھے۔ اسی طرح اگر کسی کافر عورت کو مسلم مرد سے جدا کیا تو مسلم مرد نے جو مہر دیا اور نفقہ دیا وہ اسے واپس کردیا جاتا تھا۔

اب مومنات مہاجرات کے ساتھ مومنین کا نکاح جائز قرار دیا گیا بشرطیکہ وہ ان کو مہر ادا کردیں۔ اس میں ایک فقہی اختلاف ہے کہ آیا ان عورتوں کو عدت گزارنی تھی یا نہیں۔ صرف حاملہ عورتوں کو عدت گزارنی تھی یعنی جب تک وضع حمل نہ ہوجائے۔ اگر عدت ہے تو کیا یہ مطلقہ عورت کی عدت ہے یعنی تین طہریا ینی۔ یا یہ کہ ایک حیض آنے کے ساتھ اور رحم پاک ہونے کا تیقن کافی ہے۔ (کتب فقہ دیکھیں)

واتوھم ما ................ ماانفقوا (06 : 01) ” ان کے کافر شوہروں نے جو مہران کو دیئے تھے وہ انہیں پھیر دو ۔ اور ان سے نکاح کر لنے میں تم پر کوئی گناہ نہیں جب کہ تم ان کے مہر ان کو ادا کردو۔ اور تم خود بھی کافر عورتوں کو اپنے نکاح میں نہ روکے رہو۔ جو مہر تم نے اپنی کافر بیویوں کو دیئے تھے وہ تم واپس مانگ لو۔ اور جو مہر کافروں نے اپنی مسلمان بیویوں کو دیئے تھے انہیں وہ واپس مانگ لیں “۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ ان تمام احکام پر عمل کا ضامن اور چوکیدار مقرر کرتا ہے جو ہر مسلم کے دل میں ہے۔ کہ اللہ دیکھ رہا ہے ، اللہ سے ڈرو۔

ذلکم .................... حکیم (06 : 01) ” یہ اللہ کا حکم ہے ، وہ تمہارے درمیان فیصلہ کرتا ہے اور وہ علیم و حکیم ہے “۔ یہ واحد ضمانت ہے جس پر اعتماد کیا جاسکتا ہے کہ کوئی دھوکہ ، حلیہ یا نقص عہد نہ کرے گا ، کیونکہ اللہ کے احکام تو علیم وخبیر کے احکام ہیں۔ اور یہ اس حاکم کے احکام ہیں جو دلوں کے بھیدوں کو بھی جانتا ہے۔ یہ احکام نہایت قوی اور قدرتوں والے حاکم کے ہیں۔ ایک مسلمان کے ضمیر میں بس یہی رابطہ کافی ہے اور وہ جانتا ہے کہ یہ حکم کہاں سے آیا ہے اس لئے وہ ان احکام پر چلتا ہے اور ان کا خیال رکھتا ہے۔ کیونکہ مومن کو یقین ہوتا ہے کہ اس نے اللہ کے سامنے جانا ہے۔

اب اگر مسلمانوں نے اپنی بیویوں کو مہر وغیرہ دیا ہو اور وہ بیویاں دارالکفر میں رہ گئی ہوں جہاں وہ اس قانون کے مطابق جدا ہوگئی ہوں اور ان کے اہل خانہ یا اولیاء نے مومن مسلمانوں کے حق کو واپس نہ کیا ہو ، جیسا کہ بعض حالات میں عملاً ایسا ہوا۔ تو امام وقت ان کے نقصان کی تلاف اس فنڈ سے کردے گا جو ان کافروں کی ملکیت ہوگا جن کی بیویاں دارالاسلام کو آگئی ہوں یا ان رقومات سے ادائیگی کردی جائے گی جو کفار کے ہاں سے مال غنیمت مسلمانوں کو ملا۔

وان فاتکم .................... ما انفقوا (06 : 11) ” اور اگر تمہاری کافر بیویوں کے مہروں میں سے کچھ تمہیں کفار سے واپس نہ ملے اور پھر تمہاری نوبت آئے تو جن لوگوں کی بیویاں ادھر رہ گئی ہیں ان کو اتنی رقم ادا کر دو جو ان کے دیئے ہوئے مہروں کے برابر ہو “۔

اور اس حکم اور اس پر عمل کرنے کو بھی ایمان سے جوڑ دیا جاتا ہے کیونکہ اسلام میں ہر حکم اللہ سے مربوط ہے۔

واتقوا ................ بہ مومنون (06 : 11) ” اور اس خدا سے ڈرتے رہو جس پر تم ایمان لائے ہو “۔ اللہ پر ایمان لانے والوں کے لئے یہ بہت ہی موثر یاد دہانی ہے۔

یوں یہ احکام زوجین کے درمیان ایک حقیقت پسندانہ فسخ نکاح کرتے ہیں۔ اور یہ جدائی اسلامی تصور حیات کے مطابق ہے۔ اسلام ازدواجی رشتوں کے لئے ایک الگ تصور رکھتا ہے۔ اسلام یہ چاہتا ہے کہ اسلامی صفیں دوسری صفوف سے مکمل طور پر جدا اور ممتاز ہوں۔ اور اسلام کی پوری زندگی اسلامی نظریہ حیات پر استوار ہو۔ اور ایمان کے محور کے ساتھ وہ مربوط ہو۔ اور ایک ایسی انسانی سوسائٹی تشکیل پائے جس کے اندر نسل ، رنگ ، زبان ، نسب اور زمین اور علاقوں کی بنیادوں پر کوئی اجتماعی نظام نہ ہو۔ اور صرف ایک ہی جھنڈا ہو جس کے مطابق لوگوں کے درمیان تفریق ہو۔ یعنی وہ پارٹی جو اللہ والوں کی ہے۔ وہ حزب اللہ ہے اور وہ پارٹی جو شیطان کی ہے جسے حزب الشیطان کہا جاتا ہے۔