منافق آدمی کی ایک پہچان یہ ہے کہ وہ سنجیدہ مجلس میں بیٹھتا ہے تو بظاہر بہت با ادب نظر آتا ہے مگر اس کا ذہن دوسری دوسری چیزوں میں لگا رہتا ہے وہ مجلس میں بیٹھ کر بھی مجلس کی بات نہیں سن پاتا۔ چنانچہ جب وہ مجلس سے باہر آتا ہے تو دوسرے اصحاب علم سے پوچھتا ہے کہ ’’حضرت نے کیا فرمایا‘‘۔
یہ وہ قیمت ہے جو اپنی خواہش پرستی کی بنا پر انہیں ادا کرنی پڑتی ہے۔ وہ اپنے اوپر اپنی خواہش کو غالب کرلیتے ہیں۔ وہ دلیل کی پیروی کرنے کے بجائے اپنی خواہش کی پیروی کرتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دھیرے دھیرے ان کے احساسات کند ہوجاتے ہیں۔ ان کی عقل اس قابل نہیں رہتی کہ وہ بلند حقیقتوں کا ادراک کرسکے۔
اس کے برعکس، جو لوگ حقیقتوں کو اہمیت دیں، جو سچی دلیل کے آگے جھک جائیں، وہ اس عمل سے اپنی فکری صلاحیت کو زندہ کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی معرفت میں دن بدن اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ ان کو ابدی طور پر جمود سے نا آشنا ایمان حاصل ہوجاتا ہے۔