واذا قيل ان وعد الله حق والساعة لا ريب فيها قلتم ما ندري ما الساعة ان نظن الا ظنا وما نحن بمستيقنين ٣٢
وَإِذَا قِيلَ إِنَّ وَعْدَ ٱللَّهِ حَقٌّۭ وَٱلسَّاعَةُ لَا رَيْبَ فِيهَا قُلْتُم مَّا نَدْرِى مَا ٱلسَّاعَةُ إِن نَّظُنُّ إِلَّا ظَنًّۭا وَمَا نَحْنُ بِمُسْتَيْقِنِينَ ٣٢
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

آیت 32 { وَاِذَا قِیْلَ اِنَّ وَعْدَ اللّٰہِ حَقٌّ وَّالسَّاعَۃُ لَا رَیْبَ فِیْہَا } ”اور جب کہا جاتا کہ اللہ کا وعدہ سچ ہے اور قیامت آنے میں کوئی شک نہیں“ { قُلْتُمْ مَّا نَدْرِیْ مَا السَّاعَۃُ } ”تو تم کہتے کہ ہم نہیں جانتے کہ قیامت کیا ہوتی ہے“ السّاعۃ قیامت کی موعودہ گھڑی کا ذکر سن کر تم کہا کرتے تھے کہ ہم کسی ساعت واعت کو نہیں جانتے۔ تمہارے یہ گستاخانہ جملے ہمارے پاس ریکارڈ میں موجود ہیں۔ { اِنْ نَّظُنُّ اِلَّا ظَنًّا } ”ہاں ہمیں ایک گمان سا تو ہوتا ہے“ لیکن کبھی کبھی تم قیامت کا ذکر سن کر یوں بھی کہا کرتے تھے کہ ہاں قیامت کے قائم ہونے اور آخرت کی زندگی کے بارے میں ہمیں گمان سا تو ہوتا ہے ‘ ایک خیال سا تو آتا ہے۔ اصل بات یہ تھی کہ نیکی و بدی کے فرق اور سزا و جزا کی منطق کو تم لوگ خوب سمجھتے تھے۔ تم جانتے تھے کہ پیشہ ور مجرم اور نیک لوگ برابر نہیں ہوسکتے۔ کبھی کسی مظلوم کی بےبسی کو دیکھ کر تمہارے ذہن میں یہ سوال بھی چپک جاتا تھا کہ اس بےچارے کی کہیں تو داد رسی ہونی چاہیے اور کبھی کبھی تمہارا ضمیر تمہیں یہ بھی یاد دلایا کرتا تھا کہ ظالموں کو قرار واقعی سزا دلوانے کے لیے کوئی موثر اور قطعی نظام تو ضرور ہونا چاہیے۔ لیکن پھر دنیوی مفادات کی یلغار کو اپنے سامنے پا کر ایسی ہر سوچ کو مفروضہ قرار دے کر تم جھٹک دیا کرتے تھے۔ { وَّمَا نَحْنُ بِمُسْتَیْقِنِیْنَ } ”اور ہم اس کا یقین کرنے والے نہیں ہیں۔“ یہاں پر ”یقین“ کا لفظ بہت اہم اور معنی خیز ہے۔ دراصل ”آخرت“ کو ایک رسمی نظریے کے طور پر تسلیم کرلینا کافی نہیں۔ اس ”ایمان“ کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے اس کے بارے میں دل میں گہرا یقین ہونا بہت ضروری ہے۔ جب تک دل میں بعث بعد الموت اور آخرت کا پختہ یقین نہیں ہوگا انسان کا کردار درست نہیں ہوسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ سورة البقرۃ کی ابتدائی آیات میں متقین کی صفات کے حوالے سے جہاں غیب اور الہامی کتب پر ”ایمان لانے“ کی شرط کا ذکر ہے وہاں آخرت کے بارے میں ”یقین رکھنے“ کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے : { وَبِالْاٰخِرَۃِ ہُمْ یُوْقِنُوْنَ }۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آخرت کے بارے میں دل کے اندر گہرایقین رکھے بغیر مقام تقویٰ تک پہنچنا ممکن ہی نہیں۔ چناچہ آج اگر ہم اپنے گریبانوں میں جھانکیں تو وَّمَا نَحْنُ بِمُسْتَیْقِنِیْنَکے الفاظ میں ہمیں اپنی باطنی کیفیت کی جھلک بھی نظر آئے گی۔ ہم موروثی مسلمان ہونے کی حیثیت سے ایک عقیدے کے درجے میں تو آخرت پر ایمان رکھتے ہیں ‘ لیکن کیا دوبارہ جی اٹھنے اور اللہ کی عدالت میں پیش ہونے کا پختہ یقین ہمارے دلوں میں موجود ہے ؟ اس سوال کا جواب ہم میں سے ہر شخص کو اپنے قلب کی گہرائیوں میں جھانک کر تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ اب رہا یہ سوال کہ یقین کی مطلوبہ کیفیت تک کیسے پہنچا جائے تو اس کا جواب ہمیں سورة الحدید کے مطالعہ کے دوران ملے گا۔