آیت 41 { وَلَمَنِ انْتَصَرَ بَعْدَ ظُلْمِہٖ فَاُولٰٓئِکَ مَا عَلَیْہِمْ مِّنْ سَبِیْلٍ } ”اور جو کوئی بدلہ لے اس کے بعد کہ اس پر ظلم کیا گیا ہو تو ان لوگوں پر کوئی الزام نہیں ہے۔“ سورة النساء کی آیت 148 میں یہی اصول ان الفاظ میں بیان ہوا ہے : { لاَ یُحِبُّ اللّٰہُ الْجَہْرَ بِالسُّوْٓئِ مِنَ الْقَوْلِ اِلاَّ مَنْ ظُلِمَط } یعنی اللہ تعالیٰ کو بالکل پسند نہیں کہ کوئی شخص کوئی بری بات بلند آواز سے کہے مگر مظلوم اس سے مستثنیٰ ہے ‘ بدلہ لینا بہرحال مظلوم کا حق ہے۔ اگر وہ اپنے اوپر ہونے والی زیادتی کا بدلہ ہی لینا چاہتا ہے تو اسے معاف کرنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ دیکھئے ان آیات کا اسلوب اور انداز سورة حٰمٓ السجدۃ کی مذکورہ آیات کے اسلوب سے کس قدر مختلف ہے۔ اسی ”تضاد“ کی بنیاد پر پروفیسر منٹگمری واٹ 1909 ء۔ 2006 ء نے Muhammad at Mecca اور Muhammad at Medina دو کتابیں لکھ کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ مکہ کے اندر جب محمد عربی ﷺ کی ایک حکمت عملی ناکام ہوگئی تو انہوں نے مدینہ جا کر اپنا لائحہ عمل بالکل ہی تبدیل کرلیا۔ اس بےچارے ”دانشور“ کی نظریں تعصب کی عینک کے باعث حضور ﷺ کی تحریک کے دو مراحل کے فرق کو نہیں دیکھ سکیں۔ وہ اس سادہ سی بات کو بھی نہیں سمجھ سکا کہ پہلا مرحلہ تیاری کا مرحلہ تھا جبکہ دوسرا عملی جدوجہد کا۔ مکی دور میں ”ہاتھ بندھے رکھنے“ کا حکم دراصل ایک سوچی سمجھی حکمت عملی strategy کا حصہ تھا ‘ جس کے تحت جاں نثارانِ توحید کو صبر و مصابرت کی بھٹی میں سے گزارنا مقصود تھا تاکہ میدانِ کارزار میں اترنے سے پہلے ان کے جذبے ضبط و برداشت کی آنچ سہہ سہہ کر پختہ اور ان کے دست وبازو آزمائش و ابتلا کی سختیاں جھیلنے کے عادی ہوجائیں۔ اقبال ؔنے اس حکمت عملی کو اس طرح بیان کیا ہے : ؎نالہ ہے بلبل ِشوریدہ ترا خام ابھی اپنے سینے میں اسے اور ذرا تھام ابھی ! مدنی دور میں جب ”بندھے ہوئے ہاتھ“ کھول دیے گئے تو حالات یکسر بدل گئے۔ چناچہ میدانِ بدر میں جب حضرت بلال رض کا سامنا اپنے سابق آقا امیہ ّبن خلف سے ہوا تو چشم ِفلک کوئی اور ہی منظر دیکھ رہی تھی۔ اب امیہ کی گردن کا مقدر نشانہ بننا تھا جبکہ ”اقدام“ کا اختیار تیغ بلالی رض کے پاس تھا۔
0%