فانکم وما تعبدون۔۔۔۔۔ لنحن المسبحون (161 – 166) “۔ مفہوم یہ ہے کہ تم اور تمہارے معبود مل کر اللہ کے مقابلے میں اس کے بندوں میں سے کسی کو گمراہ نہیں کرسکتے ماسوائے ان لوگوں کے جو جہنم کے حساب میں لکھے جا چکے ہیں اور تقدیر الٰہی نے فیصلہ کردیا ہے کہ وہ جہنمی ہیں۔ تم لوگ اس مومن کو گمراہ نہیں کرسکتے جس کا نیک انجام لکھا ہوا ہے کہ اس نے راہ اطاعت لی ہے۔ کیونکہ جہنم کے ایندھن کا انتظام بھی اللہ نے کرنا ہے ۔ اور سب کو معلوم ہے کہ یہ ایندھن وہ لوگ اور انکے معبود ہیں جو اس فتنے کی راہ خود اختیار کرتے ہیں اور جو فتنہ پردازیوں کی باتیں کان لگا کر سنتے ہیں۔
یہ فرشتے اس افسانوی عقیدے پر صرف یہ تبصرہ کرتے ہیں کہ اللہ نے ہر کسی کے لیے مقام و انجام مقرر کردیا ہے۔ ہر کسی نے اس تک لامحالہ پہنچنا ہے ۔ ہم فرشتے تو سب اللہ کے بندے ہیں ، مخلوق ہیں ، ہمارے لیے اللہ نے اپنی اطاعت کے فرائض مقرر کر رکھے ہیں۔ ہم نماز کے لیے صف بستہ کھڑے ہوتے ہیں۔ ہم اللہ کی حمد و ثنا کرتے ہیں اور ہم میں سے ہر ایک اہنے مقام پر کھڑا ڈیوٹی دے رہا ہے اور اللہ تو اللہ ہے (فرشتوں کی بات یہاں ختم ہوگئی)