آیت 1 { اِنَّآاَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَرَ۔ } ”اے نبی ﷺ ! ہم نے آپ کو خیر کثیر عطا کیا۔“ الکوثر : کثرت سے ماخوذ ہے ‘ اس کا وزن فَوْعَلْ ہے جو مبالغہ کا صیغہ ہے۔ اس کا معنی ہے کسی چیز کا اتنا کثیر ہونا کہ اس کا اندازہ نہ لگایا جاسکے۔ چناچہ اس کا ترجمہ ”خیر کثیر“ کیا گیا ہے۔ ”الکوثر“ کے بارے میں ایک رائے یہ بھی ہے کہ اس سے حوض کوثر مراد ہے ‘ جو میدانِ حشر میں ہوگا اور اس سے حضور ﷺ اپنی امت کے پیاسوں کو سیراب فرمائیں گے۔ لیکن درحقیقت وہ بھی ”خیر کثیر“ ہی میں شامل ہے۔ ”خیر کثیر“ کی وضاحت سے متعلق بھی تفاسیر میں لگ بھگ پچیس تیس اقوال ملتے ہیں۔ حضور ﷺ کو عطا ہونے والے خیرکثیر کی سب سے بڑی مثال خود قرآن مجید ہے۔ اسی طرح اس کی ایک مثال حکمت بھی ہے۔ ظاہر ہے آپ ﷺ کو اعلیٰ ترین درجے میں حکمت بھی عطا ہوئی تھی ‘ جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : { یُّؤْتِی الْحِکْمَۃَ مَنْ یَّشَآئُج وَمَنْ یُّؤْتَ الْحِکْمَۃَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا کَثِیْرًاط } البقرۃ : 269 ”وہ جس کو چاہتا ہے حکمت عطا کرتا ہے ‘ اور جسے حکمت دے دی گئی اسے تو خیر ِکثیر عطا ہوگیا“۔ مزید برآں جنت کی نہر کوثر ‘ نبوت کے فیوض و برکات ‘ دین اسلام ‘ صحابہ کرام کی کثرت ‘ رفع ذکر اور مقام محمود کو ”کوثر“ کا مصداق سمجھا دیا گیا ہے۔ چناچہ اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ اے نبی ﷺ ہم نے آپ کو وہ سب کچھ عطا کردیا اور کثرت کے ساتھ عطا کردیا جس کی انسانیت کو ضرورت ہے اور جو نوع انسانی کے لیے ُ طرئہ امتیاز بن سکتا ہے۔