وعلى الثلاثة الذين خلفوا حتى اذا ضاقت عليهم الارض بما رحبت وضاقت عليهم انفسهم وظنوا ان لا ملجا من الله الا اليه ثم تاب عليهم ليتوبوا ان الله هو التواب الرحيم ١١٨
وَعَلَى ٱلثَّلَـٰثَةِ ٱلَّذِينَ خُلِّفُوا۟ حَتَّىٰٓ إِذَا ضَاقَتْ عَلَيْهِمُ ٱلْأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ وَضَاقَتْ عَلَيْهِمْ أَنفُسُهُمْ وَظَنُّوٓا۟ أَن لَّا مَلْجَأَ مِنَ ٱللَّهِ إِلَّآ إِلَيْهِ ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ لِيَتُوبُوٓا۟ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ هُوَ ٱلتَّوَّابُ ٱلرَّحِيمُ ١١٨
وَّعَلَی
الثَّلٰثَةِ
الَّذِیْنَ
خُلِّفُوْا ؕ
حَتّٰۤی
اِذَا
ضَاقَتْ
عَلَیْهِمُ
الْاَرْضُ
بِمَا
رَحُبَتْ
وَضَاقَتْ
عَلَیْهِمْ
اَنْفُسُهُمْ
وَظَنُّوْۤا
اَنْ
لَّا
مَلْجَاَ
مِنَ
اللّٰهِ
اِلَّاۤ
اِلَیْهِ ؕ
ثُمَّ
تَابَ
عَلَیْهِمْ
لِیَتُوْبُوْا ؕ
اِنَّ
اللّٰهَ
هُوَ
التَّوَّابُ
الرَّحِیْمُ
۟۠

وعلی الثلثۃ الذین خلفوا اور ان تین شخصوں کے حال پر بھی توجہ فرمائی جن کا معاملہ ملتوی چھوڑ دیا گیا تھا۔

عَلَی الثَّلٰثَۃِکا عطف عَلَیْھِمْ پر ہے۔ خُلِفُوْا کا مطلب یہ ہے کہ وہ خود غزوۂ تبوک سے رہ گئے (رسول اللہ (ﷺ) کے ساتھ نہیں گئے) یہ بھی مطلب بیان کیا گیا ہے کہ حضرت ابو لبابہ اور ان کے ساتھیوں کی توبہ قبول ہونے سے پیچھے جن کا معاملہ چھوڑ دیا گیا ‘ ملتوی رکھا گیا۔ یہ تینوں حضرات کعب بن مالک ‘ شاعر مرارہ بن ربیع اور ہلال بن امیہ تھے۔ یہ حضرات انصاری تھے۔

شیخین نے صحیحین میں اور امام احمد و ابن ابی شیبہ ‘ ابن اسحاق اور عبدالرزاق نے حضرت کعب بن مالک کا بیان نقل کیا ہے کہ حضرت کعب نے فرمایا : جس غزوہ پر بھی رسول اللہ (ﷺ) تشریف لے گئے ‘ میں کسی غزوہ میں حضور (ﷺ) کے ساتھ سے سوائے غزوۂ تبوک کے ‘ پیچھے نہیں رہا۔ ہاں غزوۂ بدر میں ساتھ نہیں گیا تھا (اور بدر میں میرا شریک نہ ہونا قابل مؤاخذہ نہ تھا کیونکہ ) جو لوگ بدر کو نہ جاسکے ان میں سے کسی پر اللہ نے عتاب نہیں کیا۔ وجہ یہ تھی کہ رسول اللہ (ﷺ) قریش کے قافلہ کے ارادہ سے نکلے تھے (لڑائی کا ارادہ ہی نہ تھا) لیکن بغیر کسی مقررہ وعدہ کے دشمن سے بحکم خدا مڈبھیڑ ہوگئی۔ میں عقبہ والی رات میں بھی حاضر تھا (یعنی تیسرے عقبہ کے موقع پر جب انصار نے بیعت کی تھی ‘ میں بھی موجود تھا) وہاں ہم سب نے اسلام پر مضبوط عہد و پیمان کیا تھا۔ اگرچہ لوگوں میں بدر کی شہرت زیادہ ہے لیکن شب عقبہ کی حاضری کے مقابلہ میں بدر کی شرکت میرے خیال میں افضل نہیں ہے۔

میرا واقعہ یہ ہوا کہ غزوۂ تبوک کے زمانہ میں میں بڑا طاقتور اور فراخ حال تھا ‘ اس سے پہلے کبھی میں اتنا مرفہ الحال اور طاقتور نہ ہوا۔ اس زمانہ میں پہلی ہی مرتبہ میرے پاس سواری کی دو اونٹنیاں ہوئیں ‘ اس سے پہلے میرے پاس کبھی دو سواریاں نہیں ہوئیں۔ رسول اللہ (ﷺ) کا قاعدہ تھا کہ جب کسی جہاد کا ارادہ کرتے تھے تو بطور توریہ کسی دوسرے جہاد کا نام لے دیتے تھے اور فرماتے تھے : لڑائی خفیہ تدبیر (کا نام) ہے۔ جب تبوک کے جہاد کا موقع آیا تو گرمی سخت تھی ‘ سفر طویل تھا ‘ راستہ میں بیابان تھے ‘ دشمنوں کی تعداد بہت تھی ‘ اسلئے رسول اللہ (ﷺ) نے مسلمانوں سے کھول کر بیان فرما دیا تھا اور اپنے رخ کی صحیح اطلاع دے دی تھی تاکہ اپنے جہاد کی تیاری کرلیں ۔ مسلمانوں کی تعداد رسول اللہ (ﷺ) کے ساتھ بہت تھی۔ بقول مسلم دس ہزار مسلمان ساتھ تھے۔ حاکم نے اکلیل میں حضرت معاذ کی روایت سے لکھا ہے کہ غزوۂ تبوک کو جانے کے وقت ہماری تعداد تیس ہزار سے بھی زائد تھی۔ ابو زرعہ نے کہا : کسی کتاب میں ان کے نام محفوظ نہ تھے۔ زہری نے کہا : کتاب سے مراد رجسٹر ہے۔ جو آدمی بھی غیر حاضر ہونا چاہتا تھا ‘ وہ یہی سمجھتا تھا کہ جب تک میرے بارے میں اللہ کی طرف سے وحی نہ آئے ‘ میرا معاملہ پوشیدہ ہے (کسی کو پتہ بھی نہ چلے گا) حضور (ﷺ) نے غزوۂ تبوک کا ارادہ ایسے وقت کیا جب پھل اور (درختوں کے) سائے خوشگوار ہوگئے تھے۔ حضور (ﷺ) اور آپ کے ساتھ مسلمانوں نے تیاریاں کرلیں اور جمعرات کے دن روانہ ہوگئے۔ آپ سفر پر خواہ جہاد کا ہو یا کسی اور غرض سے ‘ جمعرات کو روانہ ہونا ہی پسند فرماتے تھے۔ میں بھی (روزانہ) صبح کو تیاری کرنے کے ارادہ سے گھر سے نکلتا تھا مگر بغیر کچھ کئے واپس آجاتا تھا اور دل میں کہتا تھا : مجھ میں استطاعت ہے ‘ جب چاہوں گا فوراً کرلوں گا۔ یونہی وقت ٹلتا رہا ‘ یہاں تک کہ گرمی سخت ہوگئی اور رسول اللہ (ﷺ) مسلمانوں کو ساتھ لے کر روانہ ہوگئے اور میں اپنی کچھ بھی تیاری نہ کرسکا اور دل میں خیال کرلیا کہ حضور (ﷺ) کے بعد ایک دو روز میں تیاری مکمل کر کے پیچھے سے جا پہنچوں گا۔ مسلمانوں کی روانگی کے بعد میں تیاری کرنے کیلئے صبح کو نکلا ‘ مگر بغیر کچھ کئے لوٹ آیا۔ پھر دوسرے روز صبح کو نکلا ‘ تب بھی کچھ نہیں کیا۔ اسی طرح مدت بڑھتی گئی ‘ یہاں تک کہ لوگ دور چلے گئے اور تیزی کے ساتھ جہاد کی طرف بڑھ گئے اور میں ارادہ ہی کرتا رہا کہ (جلد) کوچ کر کے ان کو پیچھے سے جا لوں گا۔ کاش ! میں نے ایسا کرلیا ہوتا ‘ مگر میرے مقدر میں ہی نہیں تھا۔ رسول اللہ (ﷺ) کی روانگی کے بعد جب میں باہر نکل کر لوگوں کو دیکھتا تھا تو گھومنے کے بعد مجھے یا تو صرف وہ لوگ نظر آتے تھے جو منافق کہے جاتے تھے یا وہ کمزور لوگ دکھائی دیتے تھے جن کو اللہ نے معذور بنا دیا تھا ‘ اور کوئی نظر نہیں آتا تھا۔ تبوک پہنچنے تک رسول اللہ (ﷺ) نے میرا تذکرہ نہیں کیا۔ تبوک پہنچ کر ایک روز آپ صحابہ میں بیٹھے ہوئے تھے کہ دریافت فرمایا : کعب بن مالک کو کیا ہوگیا ؟ بنی سلمہ کے یا میری قوم کے ایک آدمی نے (جس کا نام حسب روایت محمد بن عمر ‘ عبد اللہ بن انیس سلمی تھا) کہا : یا رسول اللہ (ﷺ) ! اس کو اس کی دو چادروں نے اور (غرور و فخر کے ساتھ) اپنے دونوں پہلوؤں پر دیکھنے نے نہیں آنے دیا (یعنی آجکل وہ مرفہ الحال ہے ‘ ایک چادر باندھتا ہے ‘ ایک اوڑھتا ہے اور دونوں طرف گردن موڑ موڑ کر اپنے مونڈھوں کو دیکھتا ہے ‘ اسی وجہ سے وہ نہ آسکا) حضرت معاذ بن جبل یا ابو قتادہ نے کہا : تم نے بری بات کہی (ایسا نہیں ہے) یا رسول اللہ (ﷺ) ! خدا کی قسم ‘ میں نے اس کے اندر سوائے اچھائی کے اور کچھ نہیں پایا۔ رسول اللہ (ﷺ) خاموش ہوگئے۔

حضرت کعب بن مالک کا بیان ہے : جب مجھے اطلاع ملی کہ رسول اللہ (ﷺ) واپس آنے کیلئے چل پڑے ہیں تو مجھے بڑی فکرہوئی اور رسول اللہ (ﷺ) کے سامنے پیش کرنے کیلئے عذر بنانے لگا اور ایسی بات کی تیاری کرنے لگا کہ کل کو رسول اللہ (ﷺ) کی ناراضگی سے میں کس طرح بچ سکوں گا۔ مختلف اہل الرائے اور گھر والوں سے میں نے اس معاملہ میں مدد بھی لی۔ پھر جب مجھ سے کہا گیا کہ رسول اللہ (ﷺ) قریب ہی آپہنچے ہیں تو میرے دل سے تمام غلط خیالات جاتے رہے اور میں سمجھ گیا کہ جس بات میں جھوٹ کی آمیزش ہوگی ‘ اس کے ذریعہ سے میں ناراضگی سے کبھی محفوظ نہیں رہ سکتا۔ چناچہ میں نے سچ بولنے کا پختہ ارادہ کرلیا اور یقین کرلیا کہ سچائی ہی مجھے نجات دے سکتی ہے۔ صبح کو حضور (ﷺ) تشریف لے آئے۔

ابن سعد نے کہا : رمضان میں (واپس پہنچے) کعب نے کہا : کہ رسول اللہ (ﷺ) جب (سفر سے واپس) آتے تھے تو دن چڑھے مدینہ میں پہنچتے تھے اور سب سے پہلے مسجد میں پہنچ کر دو رکعت نماز پڑھتے تھے ‘ پھر وہیں بیٹھ جاتے تھے ‘ پھر وہاں سے حضرت فاطمہ کے پاس تشریف لے جاتے تھے ‘ اس کے بعد امہات المؤمنین کے ہاں جاتے تھے۔ حسب دستور آپ نے سب سے پہلے مسجد میں پہنچ کر دو رکعت نماز پڑھی ‘ پھر وہیں لوگوں کے (معاملات سننے کے) لئے بیٹھ گئے۔ اب تبوک کی شرکت سے رہنے والے لوگ آنے لگے اور (اپنے اپنے) عذر پیش کرنے اور قسمیں کھانے لگے۔ یہ سب لوگ کچھ اوپر اسی تھے۔ رسول اللہ (ﷺ) نے ان کے ظاہری عذر کو قبول کرلیا ‘ ان سے بیعت لے لی اور ان کیلئے دعائے مغفرت کی اور ان کے باطن کو اللہ کے سپرد کردیا۔ جب میں خدمت گرامی میں حاضر ہوا اور سلام کیا تو آپ مسکرا دئیے ‘ مگر مسکراہٹ غصہ آلود تھی اور فرمایا : آؤ۔ میں چلتا چلتا سامنے پہنچ کر بیٹھ گیا۔ ابن عابد کی روایت میں آیا ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے کعب کی طرف سے منہ پھیرلیا۔ کعب نے عرض کیا : یا رسول اللہ (ﷺ) ! آپ نے میری طرف سے کیوں منہ پھیرلیا ؟ وا اللہ ! میں منافق نہیں ہوں ‘ نہ مجھے (اسلام کی صداقت میں) کوئی شک ہے ‘ نہ میں (عقیدۂ اسلام سے) بدل گیا ہوں۔ فرمایا : پھر تم (ساتھ جانے سے) کیوں رہ گئے ‘ کیا تم نے سواری نہیں خرید لی تھی ؟ میں نے عرض کیا : بیشک (میں نے سواری بھی خرید لی تھی) یا رسول اللہ (ﷺ) ! اگر میں کسی اور دنیا دار کے پاس اس وقت بیٹھا ہوتا تو خدا کی قسم ! کوئی عذر معذرت کر کے اس کی ناراضگی سے بچ جاتا کیونکہ مجھ میں قوت کلامیہ (اور دلیل کی طاقت) موجود ہے ‘ لیکن مجھے معلوم ہے کہ اگر میں آپ کے سامنے جھوٹ بنا بھی دوں گا اور آپ راضی بھی ہوجائیں گے تب بھی عنقریب اللہ آپ کو مجھ سے ناراض کر دے گا اور اگر سچ سچ کہہ دوں گا تو گو آپ ناراض ہوجائیں گے مگر امید ہے کہ اللہ مجھے معاف فرما دے گا۔ بخدا ! مجھے کوئی عذر نہ تھا ‘ نہ اس سے پہلے میں اتنا طاقتور اور فراخ حال (کبھی ہوا) تھا۔ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا : اس نے سچی بات کہہ دی۔ اب تم اٹھ جاؤ اور اللہ جو کچھ چاہے گا ‘ تمہارے متعلق فیصلہ کر دے گا۔

میرے سچ بولنے کی وجہ سے بنی سلمہ کے کچھ لوگ برانگیختہ ہوگئے اور کہنے لگے : تو نے اس سے پہلے تو کوئی جرم کیا نہ تھا ‘ نہ اتنا کمزور تھا کہ جس طرح دوسرے شرکت نہ کرنے والوں نے اپنی عدم شرکت کے عذر کئے (اور عتاب سے بچ گئے) تو کوئی عذر نہ پیش کرسکتا (آئندہ) رسول اللہ (ﷺ) کی دعائے مغفرت تیرے (اس) گناہ کے معاف ہونے کیلئے کافی تھی۔ غرض وہ برابر مجھے ڈانٹتے اور سرزنش کرتے رہے اور اتنی سرزنش کی کہ میرا ارادہ ہوگیا کہ دوبارہ خدمت گرامی میں حاضر ہو کر اپنے پہلے قول کی تکذیب کر دوں ‘ لیکن میں نے کہہ دیا : مجھ سے دو جرم یکجا نہیں ہو سکتے کہ جہاد میں رسول اللہ (ﷺ) کے ساتھ بھی نہیں گیا اور اب حضور (ﷺ) سے جھوٹ بھی بولوں۔

پھر میں نے لوگوں سے دریافت کیا : کیا میرے ساتھ ایسا کوئی اور بھی ہے جو تبوک کو نہیں گیا ہو (اور اس نے کوئی عذر تراشی بھی نہ کی ہو) لوگوں نے کہا : ہاں دو آدمی اور بھی ہیں جنہوں نے اسی طرح کی بات کہی تھی جیسی تو نے کی تھی اور ان کو بھی وہی ہدایت کی گئی جو تجھے کی گئی۔ میں نے پوچھا : وہ دونوں کون ہیں ؟ لوگوں نے کہا : مرارہ بن ربیع عمری اور ہلال بن امیہ واقضی۔

ابن ابی حاتم نے حسن تابعی کی مرسل روایت سے بیان کیا ہے کہ اوّل الذکر کے نہ جانے کی وجہ تو یہ ہوئی کہ ان کا ایک باغ تھا جو کھل چکا تھا (یعنی اس میں خوشے لٹک رہے تھے) انہوں نے اپنے دل میں کہا : اس سے پہلے میں (بہت) جہاد کرچکا ہوں ‘ اگر اس سال اپنے گھر ٹھہرا رہوں تو کیا حرج ہے۔ لیکن جب ان کو اپنے اس جرم کا احساس ہوا تو کہنے لگے : اے اللہ ! میں تجھے گواہ بناتا ہوں کہ اس کو تیری راہ میں خیرات کرتا ہوں (اسی نے مجھے جانے سے روکا ہے) اور دوسرے صاحب کا واقعہ یہ ہوا کہ ان کے گھر والے کہیں (سفر میں) منتشر تھے ‘ لوٹ کر آئے تو کہنے لگے : اس سال (جہاد کو) نہ جاؤ ‘ ہمارے پاس رہو (تو کوئی حرج نہیں) ان کو بھی اپنے جرم کا احساس ہوا تو انہوں نے (ا اللہ سے عہد کیا اور) کہا : اے اللہ ! مجھ پر لازم ہے کہ میں اپنے گھر والوں کے اور مال کے پاس لوٹ کر نہ جاؤں گا (تاوقتیکہ تیرا جدید حکم نہ ہو)

حضرت کعب کا بیان ہے : لوگوں نے میرے سامنے دو نیک آدمیوں کا نام لیا جو بدر میں شریک ہوچکے تھے اور جن کی پیروی کی جاسکتی تھی۔ ان کا نام سن کر میں اپنی سابق بات پر قائم رہا۔ جو لوگ تبوک کو نہیں گئے تھے ‘ ان میں سے صرف ہم تینوں سے ہی رسول اللہ (ﷺ) نے مسلمانوں کو کلام کرنے کی ممانعت فرما دی۔ لوگ اس فرمان کے بعد ہمارے لئے بالکل بدل گئے۔ ابن ابی شیبہ کی روایت میں آیا ہے : ہم صبح کو لوگوں میں نکلتے تھے مگر کوئی ہم سے سلام کلام نہیں کرتا تھا ‘ نہ ہمارے سلام کا جواب دیتا تھا۔ عبدالرزاق کی روایت ہے : لوگ ایسے بدل گئے کہ گویا وہ ہم کو جانتے ہی نہیں ہیں۔ درو دیوار اجنبی ہوگئے ‘ وہ در و دیوار ہی نہ رہے جن کو ہم پہچانتے تھے۔ میرے لئے سب سے زیادہ رنج آفریں یہ خیال تھا کہ اگر میں اسی حالت میں مر گیا تو رسول اللہ (ﷺ) میرے جنازہ کی نماز بھی نہیں پڑھیں گے اور اگر اسی دوران میں رسول اللہ (ﷺ) کی وفات ہوگئی تو میری یہی حالت قائم رہے گی کہ نہ کوئی مجھ سے کلام کرے گا نہ میرے جنازے کی نماز پڑھے گا۔ یہاں تک نوبت پہنچی کہ وہ سرزمین ہی میرے لئے اجنبی ہوگئی ‘ وہ بستی وہ نہ رہی جو میری شناسا تھی۔ یہ حالت پچاس رات قائم رہی۔ میرے دونوں ساتھی تو کمزور تھے ‘ وہ گھروں میں بیٹھ رہے مگر میں طاقتور اور جوان تھا ‘ گھر سے نکل کر مسلمانوں کے ساتھ نماز میں شریک ہوتا تھا اور بازاروں میں گھومتا تھا مگر کوئی مجھ سے کلام سلام نہیں کرتا تھا۔ نماز کے بعد جب رسول اللہ (ﷺ) صحابہ کے جلسہ میں بیٹھے ہوتے تو میں حاضر ہو کر سلام کرتا اور دل میں کہتا : کیا حضور (ﷺ) نے سلام کا جواب دینے کیلئے لب مبارک ہلائے یا نہیں ‘ پھر حضور صلی اللہ علیہ کے پاس پہنچ کر (دانستہ) نماز پڑھتا اور کن انکھیوں سے دیکھتا رہتا (کہ حضور (ﷺ) کی توجہ میری طرف ہوئی یا نہیں ( جب میں نماز کی طرف متوجہ ہوتا تو حضور (ﷺ) میری طرف منہ کرلیتے ‘ لیکن جب میں التفات نظر کرتا تو آپ منہ پھیر لیتے۔ جب مدت تک لوگ مجھ سے یونہی دور دور رہے تو ایک روز دیوار پھلانک کر میں ابوقتادہ کے پاس ان کے باغ میں پہنچ گیا۔ ابو قتادہ میرے چچا زاد تھے ‘ یعنی قبیلۂ بنی سلمہ سے تھے ‘ میرے باپ کے بھائی کے بیٹے نہ تھے۔ مجھے ان سے بڑی محبت تھی۔ میں نے ان کو سلام کیا مگر خدا کی قسم ! انہوں نے سلام کا جواب نہیں دیا۔ میں نے کہا : ابو قتادہ ! یہ تو تم کو معلوم ہی ہے کہ میں اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہوں۔ ابو قتادہ خاموش رہے۔ میں نے پھر اپنی بات دہرائی۔ وہ خاموش رہے ‘ کوئی بات نہیں کی۔ تیسری یا چوتھی بار کہنے کے بعد انہوں نے کہا : اللہ اور اس کے رسول ہی کو خوب معلوم ہے۔ یہ سن کر میری آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے اور لوٹ کر دیوار پھلانگ کر میں آگیا۔ ایک روز میں بازار میں جا رہا تھا کہ علاقۂ شام کا رہنے والا ایک دیہاتی نظر پڑا ‘ یہ شخص غلہ لے کر مدینہ میں بیچنے آیا تھا۔ کسی سے اس نے پوچھا : مجھے کعب بن مالک کا پتہ بتا دے۔ لوگوں نے میری طرف اشارہ کردیا۔ وہ میرے پاس آیا اور ایک خط مجھے دیا جو شاہ غسان کی طرف سے تھا (یعنی بادشاہ شام کی طرف سے) ابن ابی شیبہ کی روایت میں ہے کہ میرے قبیلہ کا کوئی آدمی شام میں تھا ‘ اس نے بھیجا تھا۔ خط ریشمی کپڑے کے ایک ٹکڑے میں لپٹا ہوا تھا اور اس میں لکھا تھا : مجھے اطلاع ملی ہے کہ تمہارے ساتھی نے تم کو دور کردیا ہے اور پرے پھینک دیا ہے اور اللہ نے تم کو ایسا نہیں بنایا کہ ذلت کے مقام میں رہو اور تمہارا حق ضائع کیا جاتا رہے ‘ اسلئے اگر تم سکونت منتقل کرنا چاہتے ہو تو ہم سے آ ملو ‘ ہم تمہاری مدد کریں گے۔ خط پڑھ کر میں نے کہا : یہ بھی (ا اللہ کی طرف سے) آزمائش ہے کہ کافر بھی میرا لالچ کرنے لگے (میری ذات کافروں کے لالچ کی جولان گاہ بن گئی) پھر میں نے تحریر کو تنور میں جھونک دیا۔ ابن عابد کی روایت میں آیا ہے کہ حضرت کعب نے رسول اللہ (ﷺ) سے اپنی حالت کا شکوہ کیا اور عرض کیا : آپ کی مجھ سے روگردانی اب اس حد تک پہنچ گئی کہ مشرک میرا لالچ کرنے لگے۔

جب پچاس راتوں میں سے چالیس راتیں گذر گئیں تو اچانک رسول اللہ (ﷺ) کا ایک قاصد میرے پاس پہنچا۔ محمد بن عمر نے اس قاصد کا نام خزیمہ بن ثابت بتایا ہے ‘ یہی قاصد مرارہ اور ہلال کے پاس بھی گیا۔ قاصد نے کہا : رسول اللہ (ﷺ) نے تم کو حکم دیا ہے کہ اپنی بیوی سے الگ ہوجاؤ۔ میں نے کہا : کیا طلاق دے دوں یا کچھ اور ؟ اس نے کہا : طلاق کا حکم نہیں ہے۔ اس سے الگ رہو ‘ قربت نہ کرو۔ میرے دونوں ساتھیوں کے پاس بھی یہی حکم پہنچا۔ حسب الحکم میں نے اپنی بیوی سے کہا : اپنے گھر چلی جا اور فیصلہ قطعی ہونے تک وہیں رہ۔ ہلال بن امیہ کی بیوی یعنی خولہ بنت عاصم نے خدمت گرامی میں حاضر ہو کر عرض کیا : یا رسول اللہ (ﷺ) ! ہلال بن امیہ بوڑھا آدمی ہے ‘ اپنا کام خود نہیں کرسکتا اور اس کا کوئی خادم بھی نہیں ہے۔ کیا اگر میں اس کا کام کردیا کروں تو آپ کی ناگواری کا باعث ہوگا ؟ ابن ابی شیبہ کی روایت میں یہ الفاظ ہیں : وہ بوڑھا ہے ‘ نظر بہت کمزور ہے۔ حضور (ﷺ) نے فرمایا : نہیں (کام کردینے کی ممانعت نہیں ہے) مگر وہ تجھ سے قربت نہ کرے۔ عورت نے کہا : خدا کی قسم ! اس کو تو کسی بات کی حس ہی نہیں ہے۔ جب سے اس کا یہ واقعہ ہوا ہے ‘ برابر آج تک رونے میں مشغول ہے۔ حضرت کعب کا بیان ہے : مجھ سے بھی میرے کسی گھر والے نے کہا : اگر ہلال بن امیہ کی بیوی کی طرح تم بھی اپنی بیوی کیلئے رسول اللہ (ﷺ) سے اجازت لے لو کہ وہ تمہاری خدمت کردیا کرے تو مناسب ہے۔ میں نے کہا : خدا کی قسم ! میں رسول اللہ (ﷺ) سے اجازت نہیں مانگوں گا۔ کیا معلوم حضور (ﷺ) کیا فرمائیں اور میں تو جوان آدمی ہوں (مجھے دوسرے سے کام لینے کی ضرورت نہیں ہے) اسی حالت میں دس راتیں اور گذر گئیں اور پچاس راتیں پوری ہوگئیں۔

عبدالرزاق کی روایت میں حضرت کعب کا قول آیا ہے : ایک تہائی رات کے وقت ہماری توبہ قبول ہونے کی آیت رسول اللہ (ﷺ) پر نازل ہوئی۔ حضرت ام سلمہ نے عرض کیا : یا نبی اللہ ! کیا کعب بن مالک کو ہم بشارت دے دیں۔ فرمایا : (اس وقت قبول توبہ کی اطلاع دو گی) تو لوگ تم پر ٹوٹ پڑیں گے اور باقی رات میں سونے نہ دیں گے (فجر کو اطلاع دے دینا) ۔

کعب کا بیان ہے : پچاسویں رات کی صبح کو میں فجر کی نماز پڑھنے کے بعد اپنے گھر کی چھت پر (بیٹھا) تھا اور میری حالت وہ تھی جو اللہ نے بیان فرمائی ہے (ضاقت علیھم الارض بما رحبت) زمین باوجود فراخ ہونے کے میرے لئے تنگ ہوگئی تھی۔ یکدم ایک چیخنے والے کی آواز سنائی دی جو کوہ سلع پر چڑھ کر انتہائی اونچی آواز سے چیخا تھا : اے کعب بن مالک ! تجھے خوش خبری ہو۔ محمد بن عمر کی روایت ہے کہ کوہ سلع پر چڑھنے والے حضرت ابوبکر تھے ‘ آپ نے ہی پکار کر کہا تھا : اللہ نے کعب پر رحم فرما دیا۔ اے کعب ! خوش ہوجا۔ عقبہ کی روایت ہے کہ دو آدمی دوڑے ہوئے حضرت کعب کو بشارت دینے کیلئے گئے ‘ ایک آگے بڑھ گیا۔ جو پیچھے رہ گیا تھا ‘ وہ کوہ سلع پر چڑھ گیا اور وہیں سے اس نے ندا کی : اے کعب ! توبہ قبول ہونے کی تجھے بشارت ہو۔ اللہ نے تم لوگوں کے بارے میں قرآن نازل فرما دیا۔

اہل تاریخ کا خیال ہے کہ بشارت دینے کیلئے دوڑنے والے یہ دونوں حضرات حضرت ابوبکر و حضرت عمر تھے۔

حضرت کعب کا بیان ہے : آواز سنتے ہی میں سجدہ میں گر پڑا اور خوشی سے رونے لگا اور سمجھ گیا کہ کشائش کا وقت آگیا۔ رسول اللہ (ﷺ) نے نماز فجر ادا کرنے کے بعد ہماری توبہ قبول ہونے کا اعلان فرمایا۔ لوگ ہم کو بشارت دینے کیلئے آگئے۔ کچھ اور لوگ میرے دونوں ساتھیوں کو خوشخبری دینے کیلئے پہنچے۔ ایک شخص گھوڑا دوڑاتا میرے پاس آیا۔ محمد بن عمر نے کہا : یہ حضرت زبیر بن عوام تھے۔ قبیلۂ اسلم کا ایک اور شخص بھی دوڑ پڑا مگر گھوڑے کے پہنچنے سے پہلے مجھے آواز پہنچ گئی تھی ‘ اسلئے جب وہ شخص آیا جس کی آواز میں نے سنی تھی ‘ یعنی حمزہ اسلمی تو میں نے اپنے دونوں کپڑے اتار کر اس کو پہنا دئیے۔ خدا کی قسم ! میرے پاس ان دو کپڑوں کے سوا اور کپڑے ہی نہ تھے۔ ابو قتادہ (بروایت محمد بن عمر) سے دو کپڑے عاریتہ لے کر میں نے پہنے۔ ہلال بن امیہ کو قبول توبہ کی خوشخبری دینے سعید بن زید گئے تھے۔ ہلال نے کھانا پینا چھوڑ دیا تھا ‘ مسلسل روزے رکھ رہے تھے اور برابر رونے میں مشغول تھے۔ میرا خیال تھا کہ وہ سر بھی نہیں اٹھا سکتے ‘ ان کی جان نکل جائے گی۔ مرارہ بن ربیع کو بشارت سلکان بن سلامہ نے دی۔ یہ سلامہ بن وقش کے باپ تھے۔

حضرت کعب بن مالک کا بیان ہے : میں رسول اللہ (ﷺ) کی خدمت میں حاضر ہونے کیلئے روانہ ہوا۔ راستہ میں لوگوں کے گروہ در گروہ مبارک باد دینے کیلئے مجھ سے ملتے رہے۔ آخر میں مسجد میں داخل ہوا۔ رسول اللہ (ﷺ) بیٹھے ہوئے تھے ‘ گرداگرد لوگ بھی موجود تھے۔ مجھے دیکھ کر طلحہ بن عبیدا اللہ اٹھے اور لپک کر میری طرف بڑھے ‘ مجھ سے مصافحہ کیا اور مبارک باد دی۔ مہاجرین میں سے سوائے طلحہ کے اور کوئی نہیں اٹھا۔ میں طلحہ کی یہ بات نہیں بھولوں گا۔ رسول اللہ (ﷺ) کا چہرۂ مبارک خوشی سے چمک رہا تھا۔ میں نے سلام کیا ۔ حضور (ﷺ) نے فرمایا : جب سے تو ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہے ‘ اس وقت سے آج تک ہر دن سے بہتر دن کی تجھے بشارت ہو۔ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ (ﷺ) ! کیا یہ آپ کی طرف سے ہے ‘ یا اللہ کی طرف سے ؟ فرمایا : نہیں ‘ اللہ کی طرف سے ہے۔ تم لوگوں نے اللہ سے سچا معاملہ کیا ‘ اللہ نے بھی تم کو سچا قرار دیا۔ رسول اللہ (ﷺ) کی عادت تھی کہ خوشی کے وقت آپ کا چہرہ چمکنے لگتا تھا ‘ معلوم ہوتا تھا چاند کا ٹکڑا ہے۔ ہم دیکھ کر پہچان لیتے تھے (کہ حضور (ﷺ) اس وقت خوش ہیں) جب میں سامنے بیٹھا تو عرض کیا : یا رسول اللہ (ﷺ) ! میری توبہ کا تتمہ یہ ہے کہ اپنے کل مال سے دستبردار ہوجاؤں اور بطور صدقہ اللہ اور اس کے رسول کی خدمت میں پیش کر دوں۔ فرمایا : کچھ مال اپنے لئے بھی روک رکھو ‘ تمہارے لئے یہی بہتر ہے۔ میں نے عرض کیا : اچھا ! نصف مال (سے دستبردار ہوتا ہوں) فرمایا : نہیں۔ میں نے عرض کیا : تو ایک تہائی (قبول کرلیجئے) فرمایا : اچھا۔ میں نے عرض کیا : تو خیبر میں جو میرا حصہ ہے ‘ میں اس کو روکے رکھتا ہوں۔ پھر میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ (ﷺ) ! اللہ تعالیٰ نے سچ بولنے کی وجہ سے مجھے نجات دی ہے ‘ لہٰذا میری توبہ کا تتمہ یہ بھی ہے کہ جب تک زندہ رہوں گا ‘ سچ ہی بولوں گا۔ خدا کی قسم ! میں نہیں جانتا کہ سچ بولنے کی وجہ سے جو کرم اللہ نے مجھ پر کیا ہے ‘ کسی اور پر اس سے بہتر احسان کیا ہوگا۔ چناچہ اس عہد کے بعد آج تک میں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا اور امید ہے کہ جب تک زندہ رہوں گا ‘ اللہ جھوٹ بولنے سے مجھے محفوظ رکھے گا۔

اللہ نے توبہ قبول فرمانے کیلئے سلسلہ میں لَقَدْ تَاب اللّٰہُ علَی النَّبِیِّ وَالْمُھَاجِرِیْنَ وَالْاَنْصَارِ ..... سے ..... وَکُوْنَوْا مَعَ الصَّادِقِیْنَ تک آیات نازل فرمائیں۔ خدا کی قسم ! جب سے اللہ نے مجھے اسلام کی توفیق عطا فرمائی ‘ اس کے بعد سے کوئی اس نعمت سے بڑی نہیں عنایت کی جو رسول اللہ (ﷺ) کے سامنے سچ کہنے سے مجھے ملی۔ اگر میں جھوٹ بول دیتا تو میں بھی ان لوگوں کی طرح تباہ ہوجاتا جنہوں نے جھوٹ بولا تھا اور اللہ نے بدترین الفاظ میں ان کا ذکر کیا۔ فرمایا : سَیَحْلِفُوْنَ باللّٰہِ لَکُمْ اِذَا انْقَلَبْتُمْ اِلَیْھِمْ ...... فَاِنَّ اللّٰہَ لاَ یَرْضٰی عَنِ الْقَوْمِ الْفَاسِقِیْنَ ۔

کعب نے فرمایا : جن لوگوں نے قسمیں کھالی تھیں اور رسول اللہ (ﷺ) نے ان کے عذر کو قبول فرما لیا تھا اور ان سے بیعت لے لی تھی اور ان کیلئے دعائے مغفرت کردی تھی ‘ ہم تینوں کا معاملہ ان کے معاملہ سے پیچھے رکھا گیا تھا۔ ہمارے معاملہ کو اللہ کے فیصلہ تک رسول اللہ (ﷺ) نے ملتوی رکھا تھا۔ آیت وَعَلَی الثَّلٰثَۃِ الَّذِیْنَ خُلِّفُوْا میں پیچھے چھوڑ دینے سے مراد جہاد سے پیچھے چھوڑ دینا نہیں ہے بلکہ ان معذرت کرنے والوں کے معاملہ سے ہمارے معاملہ کو پیچھے چھوڑ دینا اور ہمارے فیصلہ کو ملتوی رکھنا مراد ہے۔

حتی اذا ضاقت علیھم الاض بما رحبت یہاں تک کہ جب زمین باوجود فراخ اور لمبی چوڑی ہونے کے (ساتھیوں کی بےرخی کرنے کی وجہ سے) ان پر تنگ ہوگئی۔ کسی پر زمین تنگ ہوجانا ایک محاورہ ہے جو شدت حیرت کی تصویرکشی کرتا ہے یعنی وہ لوگ اپنے معاملہ میں اتنے حیران و پریشان تھے کہ ان کو اپنی بےچینی اور پریشانی دور کرنے کا کوئی مقام ہی اتنی لمبی چوڑی زمین میں میسر نہ تھا۔

وضاقت علیھم انفسھم اور وہ خود اپنی جان سے تنگ آگئے۔ یعنی ان کے دل انتہائی وحشت اور غم کی وجہ سے اتنے تنگ ہوگئے کہ انس و مسرت کی ان میں گنجائش ہی نہیں رہی۔

وظنوا ان لا ملجا من اللہ الا الیہ اور انہوں نے جان لیا کہ اللہ (کی ناراضگی و غضب) سے بچنے کا کوئی ٹھکانا سوائے اس کے اور کوئی نہیں کہ اسی سے مغفرت کی دعاء کی جائے۔

ثم تاب علیھم پھر اللہ نے ان کی توبہ قبول فرما لی۔

لیتوبوا تاکہ توبہ پر قائم رہیں۔ اس جگہ توبہ سے مراد ہے توبہ پر قائم رہنا ‘ کیونکہ توبہ تو وہ پہلے کرچکے تھے (توبہ کے بعد توبہ کے کوئی معنی نہیں) یا یہ مطلب ہے کہ اللہ نے ان کی توبہ قبول فرما لی تاکہ توبہ کرنے والوں کے گروہ میں وہ شامل ہوجائیں۔

ابوبکر وراق نے کہا : خالص اور سچی توبہ یہ ہے کہ اگر گناہ سرزد ہوجائے تو اس پر یہ لمبی چوڑی زمین تنگ ہوجائے اور دل میں سخت بےچینی اور گھبراہٹ پیدا ہوجائے ‘ جیسے ان تینوں حضرات کی توبہ تھی۔

ان اللہ ھو التواب الرحیم۔ بیشک اللہ بہت توجہ فرمانے والا اور بڑا مہربان ہے۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری کی روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا : اللہ رات میں (توبہ قبول فرمانے کیلئے) اپنا ہاتھ پھیلاتا ہے تاکہ دن کو گناہ کرنے والا (رات کو) توبہ کرلے اور دن میں اپنا ہاتھ پھیلاتا ہے تاکہ رات میں گناہ کرنے والا (دن میں) توبہ کرلے۔ یہ سلسلہ اس وقت تک قائم رہے گا جب سورج مغرب سے برآمد ہوگا (یعنی قیامت تک توبہ کا دروازہ کھلا رہے گا ‘ جب سورج مغرب سے نکلے گا تو توبہ کا دروازہ بند ہوجائے گا) رواہ مسلم۔

حضرت انس کی روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا : اگر کسی بیابان صحراء میں (سفر کی حالت میں) تم میں سے کسی کی سواری کی اونٹنی گم ہوجائے اور اونٹنی پر ہی اس مسافر کے کھانے پینے کا سب سامان ہو اور ڈھونڈ کر ناامید ہو کر یہ شخص کسی درخت کے سایہ میں لیٹ کر سو جائے ‘ پھر اچانک اس کی آنکھ کھل جائے تو اونٹنی کو اپنے پاس کھڑا پائے اور فوراً اونٹنی کی نکیل پکڑ لے اور انتہائی خوشی کی وجہ سے (زبان بےقابو ہوجائے) اور بول اٹھے : اے اللہ ! تو میرا بندہ ہے اور میں تیرا رب ہوں۔ اس مسافر کو اونٹنی کے دستیاب ہونے سے جتنی خوشی ہوتی ہے ‘ اس سے زیادہ خوشی اللہ کو بندہ کے توبہ کرنے سے ہوتی ہے ‘ جب بندہ اللہ کے سامنے توبہ کرتا ہے۔ رواہ مسلم۔ توبہ اور قبول توبہ کی احادیث بہت آئی ہیں۔