قال ما منعك الا تسجد اذ امرتك قال انا خير منه خلقتني من نار وخلقته من طين ١٢
قَالَ مَا مَنَعَكَ أَلَّا تَسْجُدَ إِذْ أَمَرْتُكَ ۖ قَالَ أَنَا۠ خَيْرٌۭ مِّنْهُ خَلَقْتَنِى مِن نَّارٍۢ وَخَلَقْتَهُۥ مِن طِينٍۢ ١٢
قَالَ
مَا
مَنَعَكَ
اَلَّا
تَسْجُدَ
اِذْ
اَمَرْتُكَ ؕ
قَالَ
اَنَا
خَیْرٌ
مِّنْهُ ۚ
خَلَقْتَنِیْ
مِنْ
نَّارٍ
وَّخَلَقْتَهٗ
مِنْ
طِیْنٍ
۟

آیت ” قَالَ مَا مَنَعَکَ أَلاَّ تَسْجُدَ إِذْ أَمَرْتُکَ قَالَ أَنَاْ خَیْْرٌ مِّنْہُ خَلَقْتَنِیْ مِن نَّارٍ وَخَلَقْتَہُ مِن طِیْنٍ (12)

” پوچھا ” تجھے کس چیز نے سجدہ کرنے سے روکا جب میں نے تجھ کو حکم دیا تھا ۔ “ بولا : ” میں اس سے بہتر ہوں ‘ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے ۔ “

ابلیس کا قصور یہ تھا کہ نص صریح کے ہوتے بھی اس نے یہ سوچا کہ وہ اپنی رائے پر عمل کرسکتا ہے اور اگر حکم کے باوجود کوئی سبب اور علت اور علت ہو تو اس پر عمل کیا جاسکتا ہے ۔ حالانکہ جب نص صریح آجائے تو پھر فکر ونظر کی کوئی گنجائش نہیں رہتی ۔ اب صرف یہ صورت رہتی ہے کہ اطاعت کی جائے اور حکم کو نافذ کیا جائے ۔ اب حضرت ابلیس ملعون کو دیکھئے کہ باوجود اس بات کے علم کے کہ اللہ خالق ومالک ہے ‘ وہی رازق اور مدبر ہے اور اس دنیا میں کوئی بات اس کے علم اور اذن کے بغیر نہیں ہو سکتی ۔ اس کے حکم کی اطاعت نہیں کرتا جو اس کے پاس پہنچ گیا ہے ۔ وہ اپنی منطق سامنے لاتا ہے ۔ ” میں اس سے زیادہ بہتر ہوں کہ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے ۔ “ اس کی اس حجت سازی پر اس کو فورا سزا ملتی ہے ۔