70:24 70:25 আয়াতের গ্রুপের জন্য একটি তাফসির পড়ছেন
والذين في اموالهم حق معلوم ٢٤ للسايل والمحروم ٢٥
وَٱلَّذِينَ فِىٓ أَمْوَٰلِهِمْ حَقٌّۭ مَّعْلُومٌۭ ٢٤ لِّلسَّآئِلِ وَٱلْمَحْرُومِ ٢٥
وَالَّذِیْنَ
فِیْۤ
اَمْوَالِهِمْ
حَقٌّ
مَّعْلُوْمٌ
۟
لِّلسَّآىِٕلِ
وَالْمَحْرُوْمِ
۟

آیت 24 ‘ 25{ وَالَّذِیْنَ فِیْٓ اَمْوَالِہِمْ حَقٌّ مَّعْلُوْمٌ - لِّلسَّآئِلِ وَالْمَحْرُوْمِ۔ } ”اور وہ جن کے اموال میں معین حق ہے ‘ مانگنے والے کا اور محروم کا۔“ ایسے لوگ یہ نہیں سمجھتے کہ جو کچھ انہوں نے کمایا ہے یا جو کچھ بھی انہیں مل گیا ہے وہ سب ان کا ہے ‘ بلکہ وہ اپنے اموال میں سے ایک معین حصہ معاشرے کے ان محروم اور نادار افراد کے لیے مختص کیے رکھتے ہیں جو اپنی کسی مجبوری کی وجہ سے دوسروں کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلا سکتے۔ دراصل اللہ تعالیٰ آزمائش کے لیے بعض لوگوں کے حصے کا کچھ رزق بعض دوسرے لوگوں کے رزق میں شامل کردیتا ہے۔ چناچہ متمول افراد کو چاہیے کہ وہ اپنے اموال میں سے مساکین و فقراء کا حصہ الگ کر کے ”حق بہ حق دار رسید“ کے اصول کے تحت خود ان تک پہنچانے کا اہتمام کریں۔ یاد رہے سورة المومنون میں اس آیت کے مقابل یہ آیت ہے : { وَالَّذِیْنَ ہُمْ لِلزَّکٰوۃِ فٰـعِلُوْنَ۔ } ”اور وہ جو ہر دم اپنے تزکیے کی طرف متوجہ رہنے والے ہیں“۔ ان دونوں آیات پر غور کرنے سے یہ نکتہ واضح ہوتا ہے کہ زکوٰۃ غرباء و مساکین کا حق ادا کردینے سے نہ صرف بقیہ مال پاک ہوجاتا ہے بلکہ یہ انفاق انسان کے تزکیہ باطن کا باعث بھی بنتا ہے۔ اس نکتے کی وضاحت سورة الحدید کی آیت 17 اور 18 کے ضمن میں بھی کی جا چکی ہے۔ دراصل مال کی محبت جب کسی دل میں گھر جاتی ہے تو یوں سمجھ لیجیے کہ اس دل میں گندگی کے انبار لگ جاتے ہیں۔ ایسی صورت میں دل کی صفائی یعنی تزکیہ باطن کا موثر ترین طریقہ یہی ہے کہ انفاق فی سبیل اللہ کے ذریعے مال کی محبت کو دل سے نکالا جائے۔ لیکن اس کے برعکس اگر کوئی شخص اپنے مال کو تو سینت سینت کر رکھتا ہے اور محض مراقبوں کے بل پر اپنے باطن اور نفس کا ”تزکیہ“ چاہتا ہے وہ گویا سراب کے پیچھے بھاگ بھاگ کر خود کو ہلکان کر رہا ہے۔