6:156 6:157 আয়াতের গ্রুপের জন্য একটি তাফসির পড়ছেন
ان تقولوا انما انزل الكتاب على طايفتين من قبلنا وان كنا عن دراستهم لغافلين ١٥٦ او تقولوا لو انا انزل علينا الكتاب لكنا اهدى منهم فقد جاءكم بينة من ربكم وهدى ورحمة فمن اظلم ممن كذب بايات الله وصدف عنها سنجزي الذين يصدفون عن اياتنا سوء العذاب بما كانوا يصدفون ١٥٧
أَن تَقُولُوٓا۟ إِنَّمَآ أُنزِلَ ٱلْكِتَـٰبُ عَلَىٰ طَآئِفَتَيْنِ مِن قَبْلِنَا وَإِن كُنَّا عَن دِرَاسَتِهِمْ لَغَـٰفِلِينَ ١٥٦ أَوْ تَقُولُوا۟ لَوْ أَنَّآ أُنزِلَ عَلَيْنَا ٱلْكِتَـٰبُ لَكُنَّآ أَهْدَىٰ مِنْهُمْ ۚ فَقَدْ جَآءَكُم بَيِّنَةٌۭ مِّن رَّبِّكُمْ وَهُدًۭى وَرَحْمَةٌۭ ۚ فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن كَذَّبَ بِـَٔايَـٰتِ ٱللَّهِ وَصَدَفَ عَنْهَا ۗ سَنَجْزِى ٱلَّذِينَ يَصْدِفُونَ عَنْ ءَايَـٰتِنَا سُوٓءَ ٱلْعَذَابِ بِمَا كَانُوا۟ يَصْدِفُونَ ١٥٧
اَنْ
تَقُوْلُوْۤا
اِنَّمَاۤ
اُنْزِلَ
الْكِتٰبُ
عَلٰی
طَآىِٕفَتَیْنِ
مِنْ
قَبْلِنَا ۪
وَاِنْ
كُنَّا
عَنْ
دِرَاسَتِهِمْ
لَغٰفِلِیْنَ
۟ۙ
اَوْ
تَقُوْلُوْا
لَوْ
اَنَّاۤ
اُنْزِلَ
عَلَیْنَا
الْكِتٰبُ
لَكُنَّاۤ
اَهْدٰی
مِنْهُمْ ۚ
فَقَدْ
جَآءَكُمْ
بَیِّنَةٌ
مِّنْ
رَّبِّكُمْ
وَهُدًی
وَّرَحْمَةٌ ۚ
فَمَنْ
اَظْلَمُ
مِمَّنْ
كَذَّبَ
بِاٰیٰتِ
اللّٰهِ
وَصَدَفَ
عَنْهَا ؕ
سَنَجْزِی
الَّذِیْنَ
یَصْدِفُوْنَ
عَنْ
اٰیٰتِنَا
سُوْٓءَ
الْعَذَابِ
بِمَا
كَانُوْا
یَصْدِفُوْنَ
۟

آیت ” نمبر 156 تا 157۔

اللہ تعالیٰ کی اسکیم یہ تھی کہ ہر رسول کو اس کی قوم کی زبان میں پیغام دے کر بھیجا گیا اور جب آخری رسالت دنیا میں آئی تو حضرت محمد ﷺ کو تمام اقوام عالم کی طرف بھیجا گیا ۔ لہذا حضور ﷺ انسانوں کے لئے آخری رسول ہیں ۔ کیونکہ ان کو تمام انسانوں کے لئے بشیر ونذیر بنا کر بھیجا گیا ہے۔

عربوں پر اللہ نے حجت اس طرح تمام کردی کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اپنی قوموں کی طرف بھیجے گئے اور عرب کہتے تھے کہ ہم ان کی کتابوں کو نہیں پڑھ سکتے تھے ۔ ہم عالم نہ تھے ‘ نہ ہم تک اس دعوت کو پہنچانے کا کوئی اہتمام کیا گیا ۔ اگر ہمارے پاس ہماری زبان میں کوئی کتاب آئی ہوتی تو ہم ضرور ایمان لاتے اور ان لوگوں کے مقابلے میں زیادہ ہدایت یافتہ ہوتے ۔ چناچہ ان کے پاس یہ کتاب آگئی اور رسول بھی آگئے بلکہ یہ رسول تمام جہان والوں کے لئے آگئے ، اس رسول کو ایسی کتاب دی گئی جو خود اپنی سچائی کی دلیل ہے ۔ آفتاب آمد دلیل آفتاب ۔ پھر اس کتاب میں جو حقائق بیان ہوئے ان میں کوئی التباس یا پیچیدگی نہیں ہے ۔ لوگ جس گمراہی میں ڈوبے ہوئے ہیں انکے لئے چراغ روشن ہے اور جن مصیبتوں میں وہ مبتلا ہیں ان کے مقابلے میں رحمت ہے ‘ دنیا کے لئے بھی اور آخرت کے لئے بھی ۔

اگر صورت حال یہ ہے تو پھر اس شخص سے بڑا ظالم کون ہوسکتا ہے جو ایسی کتاب کی آیات کی تکذیب کرتا ہو یا ان سے منہ موڑتا ہو حالانکہ یہ کتاب صحیح راہ ‘ اصلاح حال اور دنیا وآخرت کی فلاح کی طرف بلاتی ہے ۔ جو شخص اپنے آپ کو اور عوام الناس کو اس کتاب کی برکتوں سے محروم کرتا ہے ‘ اس سے بڑا ظالم کون ہو سکتا ہے ۔ وہی شخص ظالم ہے جو جاہلی تصورات اور خلاف اسلام قانون بنا کر اس زمین پر فساد پھیلاتا ہے ۔ جو لوگ اس کتاب سے روگردانی کرتے ہیں درحقیقت ان کے مزاج میں فساد پوشیدہ ہے جو انہیں اس چشمہ خیر سے دور رکھتا ہے ۔ مثلا اونٹ کے پاؤں میں جب نقص ہو یا بیماری ہو تو وہ ایک طرف جھکتا ہے اور سیدھا نہیں چلتا ۔ (صدف کا یہی مفہوم ہے) یعنی یہ لوگ سچائی سے ایک طرف چلے جاتے ہیں جس طرح ایک بیمار اونٹ ایک طرف جھکا ہوا ہوتا ہے اور سیدھا نہیں چل سکتا ۔ اپنے اس میلان کی وجہ سے وہ برے عذاب کے مستحق ہوں گے ۔

آیت ” سَنَجْزِیْ الَّذِیْنَ یَصْدِفُونَ عَنْ آیَاتِنَا سُوء َ الْعَذَابِ بِمَا کَانُواْ یَصْدِفُونَ (157)

” جو لوگ ہماری آیات سے منہ موڑتے ہیں ‘ انہیں اس روگردانی کی پاداش میں ہم بدترین سزا دے کر رہیں گے ۔ “ ۔

قرآنی انداز بیان کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ عربی زبان کے ایک ایک لفظ کو حسی مفہوم سے بلند کرکے معنوی مدلول کے لئے استعمال کرتا ہے ‘ لیکن یہ استعمال معنوی مفہوم پر اس طرح منطبق ہوتا ہے کہ اصل حسی مفہوم بھی اپنی جگہ درست نظر آتا ہے ۔ اسی طرح (یصدفون) کا استعمال ہوا ہے ۔ (صدف) کے معنی یہ ہیں کہ اونٹ اپنے پاؤں کی بیماری کی وجہ سے ایک طرف جھک کرچکے ۔ اس کی دوسری مثال ہے (الصعر) صعر عربی زبان میں ایک ایسی بیماری کو کہا جاتا ہے جس میں اونٹ کا منہ ایک طرف ٹیڑھا ہوجاتا ہے اور گردن سیدھی نہیں ہو سکتی ۔ یہ بیماری انسانوں کو بھی لاحق ہوتی ہے ۔ قرآن کریم نے اسے بطور تکبر منہ ٹیڑھا کرنے کے لئے استعمال کیا ۔ آیت ” ولا تصعر خدک “۔ (31 : 18) منہ کو ٹیڑھا نہ کرو ‘ تکبر نہ کرو ‘ اس کی تیسری مثال خبط کی ہے ۔ خبط کے معنی ہیں کسی جانور کا زہریلی گھاس کھا کر پھول جانا ۔ خطبت الناقۃ اس وقت بولتے ہیں جب اونٹنی زہریلی گھاس چر کر پھول جائے ۔ قرآن نے یہ لفظ بےمقصد اور بغیر ایمان کے اعمال کے لئے استعمال کیا ہے ۔ جس میں بظاہر اعمال بڑے نظر آئیں ۔ اس قسم کے استعمال کی بیشمار قرآن میں ہیں۔

اب بات ذرا آگے بڑھتی ہے اور اس کتاب کے آجانے کے بعد اب یہ لوگ مزید خوارق عادت واقعات اور معجزات طلب کرتے ہیں تاکہ وہ اسے تسلیم کرلیں ۔ اس قسم کی تہدید سورة کے آغاز میں بھی تھی جہاں اسلامی نظریہ توحید اور عقائد کو تسلیم نہ کرنے پر تہدید دی گئی تھی اور یہاں یہ تہدید اسلامی نظام حیات اور اسلامی شریعت کو تسلیم نہ کرنے کی مناسبت سے دوبارہ دہرائی گئی ہے ۔ ابتداء میں یہ کہا گیا تھا :

آیت ” وَقَالُواْ لَوْلا أُنزِلَ عَلَیْْہِ مَلَکٌ وَلَوْ أَنزَلْنَا مَلَکاً لَّقُضِیَ الأمْرُ ثُمَّ لاَ یُنظَرُونَ (8)

” کہتے ہیں کہ اس نبی پر کوئی فرشتہ کیوں نہیں اتارا گیا ۔ اگر کہیں ہم نے فرشتہ اتار دیا ہوتا تو اب تک کبھی کا فیصلہ ہوچکا ہوتا ‘ پھر انہیں کوئی مہلت نہ دی جاتی ۔ “ یہاں اسی مضمون کو دہرایا گیا :