آیت 23{ قُلْ ہُوَ الَّذِیْٓ اَنْشَاَکُمْ وَجَعَلَ لَـکُمُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَالْاَفْئِدَۃَ } ”کہہ دیجیے کہ وہی ہے جس نے تمہیں پیدا کیا اور تمہارے لیے کان ‘ آنکھیں اور دل بنائے۔“ لغوی اعتبار سے لفظ ’ اَنْشَاَ ‘ اٹھانے اور پرورش کرنے کا مفہوم بھی دیتا ہے۔ لفظ ”فواد“ کے مفہوم کی وضاحت سورة بنی اسرائیل کی آیت 36 کے تحت گزر چکی ہے۔ عام طور پر اس لفظ کا ترجمہ ”دل“ کیا جاتا ہے لیکن اصل میں اس سے مراد انسان کی وہ صلاحیت ہے جس کی مدد سے وہ دستیاب معلومات کا تجزیہ کر کے نتائج اخذ کرتا ہے۔ چناچہ اس لفظ میں عقل یا سمجھ بوجھ کا مفہوم بھی شامل ہے۔ یہاں ایک اہم نکتہ یہ بھی سمجھ لیجیے کہ قرآن مجید میں جب انسان کی طبعی صلاحیتوں یا حواس کا تذکرہ ہوتا ہے تو السَّمْع سماعت کا ذکر پہلے آتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسانی علم کے ذرائع میں پہلا اور بنیادی ذریعہ اس کی سماعت ہے۔ پچھلی نسلوں کے علمی آثار اور تجرباتی علم سے استفادہ کرنا ہر دور کے انسان کی ضرورت رہی ہے۔ اس علم کو بھی نسل در نسل منتقل کرنے کا بنیادی ذریعہ انسان کی سماعت ہی ہے۔ دوسرے حواس یا ذرائع اس میں اپنا اپنا حصہ بعد کے مراحل میں شامل کرتے ہیں۔ { قَلِیْلًا مَّا تَشْکُرُوْنَ۔ } ”بہت ہی کم شکر ہے جو تم لوگ کرتے ہو۔“
০%