انما جزاء الذين يحاربون الله ورسوله ويسعون في الارض فسادا ان يقتلوا او يصلبوا او تقطع ايديهم وارجلهم من خلاف او ينفوا من الارض ذالك لهم خزي في الدنيا ولهم في الاخرة عذاب عظيم ٣٣
إِنَّمَا جَزَٰٓؤُا۟ ٱلَّذِينَ يُحَارِبُونَ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُۥ وَيَسْعَوْنَ فِى ٱلْأَرْضِ فَسَادًا أَن يُقَتَّلُوٓا۟ أَوْ يُصَلَّبُوٓا۟ أَوْ تُقَطَّعَ أَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُم مِّنْ خِلَـٰفٍ أَوْ يُنفَوْا۟ مِنَ ٱلْأَرْضِ ۚ ذَٰلِكَ لَهُمْ خِزْىٌۭ فِى ٱلدُّنْيَا ۖ وَلَهُمْ فِى ٱلْـَٔاخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ ٣٣
اِنَّمَا
جَزٰٓؤُا
الَّذِیْنَ
یُحَارِبُوْنَ
اللّٰهَ
وَرَسُوْلَهٗ
وَیَسْعَوْنَ
فِی
الْاَرْضِ
فَسَادًا
اَنْ
یُّقَتَّلُوْۤا
اَوْ
یُصَلَّبُوْۤا
اَوْ
تُقَطَّعَ
اَیْدِیْهِمْ
وَاَرْجُلُهُمْ
مِّنْ
خِلَافٍ
اَوْ
یُنْفَوْا
مِنَ
الْاَرْضِ ؕ
ذٰلِكَ
لَهُمْ
خِزْیٌ
فِی
الدُّنْیَا
وَلَهُمْ
فِی
الْاٰخِرَةِ
عَذَابٌ
عَظِیْمٌ
۟ۙ

(آیت) ” نمبر 33 تا 34۔

یہ جرم جس کے بارے میں یہ آیت آئی ہے اس کی حدود کیا ہیں ؟ یعنی کسی مسلم سربراہ مملکت کے خلاف بغاوت کرنا ‘ جو حکومت شریعت کے مطابق چلا رہا ہو۔ یہ خروج ایک جمعیت کی شکل میں ہو اور کوئی گروہ اس مملکت کے خلاف مغاوت پر اتر آیا ہو اور اس نے ایسی روش اختیار کرلی ہو جس سے دارالاسلام کے لوگوں کے اندر خوف وہراس پیدا ہو اور اس گروہ کی جانب سے باشندگان دارالاسلام کو مالی ‘ جانی اور عزت کے نقصان کے خطرات لاحق ہوں ۔ بعض فقہاء نے یہ شرط بھی لگائی ہے کہ اس قسم کی واردات شہری علاقوں سے دور ہو جہاں مملکت کی انتظامیہ کی دسترس نہ ہو ۔ بعض فقہاء نے یہ بھی شرط رکھی ہے کہ اس قسم کی واردات شہری علاقوں سے دور ہو جہاں مملکت کی انتظامیہ کی دسترس نہ ہو ۔ بعض فقہاء نے یہ بھی شرط رکھی ہے کہ اس قسم کے باغیوں کے گروہ کا جمع ہوجانا اور دست درازی کا آغاز کرنا اور عملا اگر نہ بھی ہو تو بالقوہ یہ پوزیشن اختیار کرلینا ہی اس آیت کے انطیاق کے لئے کافی ہے چاہے یہ گروہ شہروں کے اندر ہو یا باہر ہو اور یہ آخری رائے عملا زیادہ قریب الفہم ہے تاکہ باغیوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جاسکے ۔

یہ باغی وہ لوگ تصور ہوں گے ‘ جو ایسے حاکم کے خلاف ہوں جو شریعت کے مطابق حکومت کر رہا ہو اور یہ باغی دارالاسلام کے ان باشندوں پر دست درازی کی پوزیشن میں ہوں ‘ جن کے ہاں شریعت جاری ہو ‘ (چاہے یہ لوگ ذمی ہوں ‘ مسلمان ہوں یامستامن ہوں) یہ لوگ صرف حکم کے خلاف باغی نہ ہوں اور صرف لوگوں کے خلاف بغاوت نہ ہو ‘ بلکہ اللہ اور رسول کے خلاف بھی بغاوت ہو ۔ اللہ کی شریعت سے محاربت ہو اور ایک ایسی سوسائٹی کے ساتھ محاربت ہو جو اس شریعت کی اساس پر قائم کی گئی ہو ۔ نیز ان کی سرگرمیوں کی وجہ سے دارالاسلام کو خطرہ لاحق ہوگیا ہو ‘ ان کی یہ جنگ اللہ اور رسول اللہ ﷺ کی خلاف تصور ہوگی ۔ یہ جنگ شریعت کے خلاف تصور ہوگا اس لئے کہ اللہ کی شریعت کو معطل کرنے سے بڑا فساد اس دنیا میں اور کوئی نہیں ہو سکتا ۔ اور نہ اس سے زیادہ بڑا فساد کوئی ہو سکتا ہے کہ دارالاسلام کے وجود کو خطرہ لاحق ہوجائے ۔

یہ لوگ چونکہ اللہ اور رسول اللہ ﷺ سے محاربت کرتے ہیں اگرچہ بظاہر وہ جماعت مسلمہ ‘ اسلامی سوسائٹی اور اس کے سربراہ کے خلاف برسرپیکار ہوتے ہیں ‘ وہ اللہ تعالیٰ کے خلاف تو تلوار اٹھا ہی نہیں سکتے ‘ اور نہ ہی رسول اللہ ﷺ کی ذات کے خلاف تلوار اٹھا سکتے ہیں ‘ جبکہ آپ سے دنیا سے اٹھ چکے ہیں ۔ لیکن اگر کوئی جنگ اللہ کی شریعت کے خلاف ہو تو گویا وہ جنگ اللہ اور رسول کے خلاف ہو رہی ہے ۔ یہ جنگ اس سوسائٹی کے خلاف تصور ہوگی جس نے اللہ اور رسول کی شریعت کو اپنایا ہے اور اس علاقے کے خلاف ہوگی جس میں یہ شریعت نافذ ہو رہی ہو ۔

اس آیت کا ایک اور مفہوم بھی درج بالا مفہوم کے مطابق یہاں متعین ہوجاتا ہے ۔ وہ یہ کہ جس سربراہ مملکت کو اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق باغیوں کے خلاف آیت میں درج سزائیں دینے کا اختیار ہے وہ وہی سربراہ مملکت ہے جو اسلامی شریعت کے مطابق سربراہ بنا ہو اور جو شریعت کا نافذ کنندہ ہو ۔ ایسے بادشاہ کے علاوہ کسی اور بادشاہ یا سربراہ مملکت کو ایسے اختیارات نہ ہوں گے ۔

اس بات کی ہم فیصلہ کن وضاحت اس لئے کر رہے ہیں کہ حکومتوں کے بعض پٹھو جو ہر حکومت کو دسیتاب ہوجاتے ہیں ‘ وہ بعض حکومتوں کے لئے ایسی سزاؤں کے اختیارات ثابت کرتے ہیں ‘ جو شرعیت کی نافذ کنندہ نہیں ہوتیں حالانکہ وہ حکومتیں اپنے علاقے میں دارالاسلام قائم نہیں کرتیں اگرچہ وہ سمجھتی ہیں کہ ہم مسلمان ہیں ۔ اسے پٹھوؤں نے ہمیشہ ان حکومتوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ ان حکومتوں کے خلاف اٹھنے والوں کو یہ قرآنی سزائیں دیں ‘ اور انہیں اللہ کی شریعت کے عنوان سے نافذ کریں ‘ حالانکہ ان لادین حکومتوں کے ارکان اللہ اور رسول کے باغی ہوتے ہیں بلکہ وہ ایسی حکومتوں کے ارکان ہوتے ہیں جو اللہ اور رسول کی باغی ہوتی ہیں ۔

غرض اگر کوئی حکومت دارالاسلام میں اسلامی شریعت کی اساس پر قائم نہ ہو ‘ تو اسے اپنے باغیوں پر وہ سزائیں نافذ کرنے کا شرعی اختیار نہیں ہے ۔ ایسی لادین حکومتوں کا شریعت کے ساتھ تعلق ہی کیا ہوتا ہے ؟ یہ حکومت ایسی ہوتی ہے جنہوں نے اللہ کے حق الوہیت اور حق حاکمیت پر دست درازی کی ہوئی ہوتی ہے ۔ ان کا قانون شریعت کے ساتھ تعلق ہی کیا رہتا ہے ؟

ایسے باغی دستوں کے لئے یہ سزائیں تب ہوں گی جب وہ اسلامی خلیفہ کے خلاف بغاوت کریں اور وہ خلیفہ کے خلاف بغاوت کریں اور وہ خلیفہ اسلامی شریعت کا نافذ کنندہ اور حامی ہو ۔ یہ لوگ دارالاسلام کے باشندوں کے لئے خطرہ ہوں ‘ ان کی جان ‘ مال اور آبرو ان سے محفوظ نہ ہو ‘ تو تب انکو قتل کیا جانا جائز اور فرض ہوگا اور ان کو سزائے موت دی جاسکے گی ۔ بعض فقہاء نے یہ کہا ہے کہ قتل کرنے کے بعد لاشوں کو لٹکا دیا جائے گا تاکہ وہ دوسروں کے لئے نمونہ عبرت ہوں اور یہ کہ ان کے ہاتھ کاٹے جائیں یعنی دائیں ہاتھ کے ساتھ بائیں پاؤں اور بائیں ہاتھ کے ساتھ دایاپاؤں ۔ (من خلاف) کا مفہوم یہ ہے ۔

اس آیت کے بارے میں فقہاء کے درمیان بہت ہی وسیع اختلاف رائے واقعہ ہوا ہے ۔ کیا امام کو اختیار ہے کہ باغیوں کو وہ ان سزاؤں میں سے جو چاہے سزا دے دے ‘ یا یہ کہ ان جرائم میں سے ہر جرم کی الگ سزا ہے ۔

امام ابوحنیفہ ‘ امام شافعی اور امام احمد (رح) سے مروی ہے کہ یہ سزائیں ان جرائم کے مطابق دی جائیں گی جو ان باغیوں سے صادر ہوئے ۔ اگر کوئی شخص صرف قتل کا ارتکاب نہ کیا تو اسے قطع ید کی سزا دی جائے گی ۔ جس نے قتل اور لوٹ دونوں میں حصہ لیا تو اسے قتل اور لٹکانے دونوں کی سزا دی جائے گی ۔ اور جس شخص نے محض خوف وہراس پھیلایا مگر نہ قتل کیا اور نہ مال کی لوٹ میں حصہ لیا تو اسے ملک بدری کی سزا دی جائے گی ۔

امام مالک سے روایت ہے کہ باغی نے اگر قتل کا ارتکاب کیا تو اسے لازما سزائے موت دی جائے گی اور امام وقت کو یہ اختیار نہ ہوگا کہ وہ اسے قطع ید دیا ملک بدری کی سزا دے ‘ البتہ اسے یہ اختیار ہے کہ اسے قتل کرا دے یاسولی پر لٹکا دے ۔ اسی طرح اگر اس نے قتل کا ارتکاب نہ کیا تو اسے ملک بدری کا اختیار نہ ہوگا ۔ امام کو اختیار اس میں ہے کہ وہ قتل کرے یا سولی پر لٹکائے ‘ یا اگر قطع اعضاء کا فیصلہ کرے تو اعضائے مخالفہ میں سے جو بھی اختیار کرے ۔ اگر مجرموں سے قتل کرے یا سولی پر لٹکائے ‘ یا اگر قطع اعضاء کا فیصلہ کرے تو اعضائے مخالفہ میں سے جو بھی اختیار کرے ۔ اگر مجرموں سے یہ ڈر ہو ‘ کہ انہوں نے راستوں کو پر خطر بنا دیا ہے تو امام کو اختیار ہے کہ انہیں قتل کرے یا سولی پر چڑھائے یا ہاتھ کاٹ دے یا ملک بدری کی سزا دے اور اختیار تمیزی کا مفہوم امام مالک (رح) کے نزدیک یہ ہے کہ معاملہ امام کے اجتہاد پر موقوف ہے ۔ اگر باغی صاحب الرائے آدمی ہو اور بغاوت کی تدابیر کرسکتا ہو تو اجتہاد کا تقاضا یہ ہوگا کہ اسے قتل کردیا جائے یا سولی پر چڑھا دیا جائے کیونکہ محض قطع ید سے اس کی مضرت دفع نہ ہو سکے گی ، اگر وہ باغی صاحب رائے نہ ہو محض ایک قوی اور بہادر شخص ہو تو اسے صرف قطع ید من خلاف کی سزا دی جائے گی اور اگر اس میں یہ دونوں صفات کسی قدر پائی جاتی ہوں تو اسے ملک بدری اور تعزیری سزا دی جائے گی ۔ (التشریع الجنائی الاسلامی ‘ عبدالقادر عودہ)

ہمارے خیال میں امام مالک کی رائے زیادہ موزوں ہے کہ سزا کبھی تو محض بغاوت اور محاربہ پر یا قطع الطریق کے خطرے اور راستوں کو پر خطربنانے پر ہوتی ہے اور یہ سزا محض امتناعی (Preventive) ہوتی ہے ۔ مقصد یہ ہوتا ہے کہ جرائم کا ارتکاب نہ ہو اور ان لوگوں کو ڈرانا مقصود ہو جو دارالاسلام کے امن وامان کو تباہ کرتے ہیں اور وہ اس سوسائٹی کو خوفزدہ کرتے ہوں جو دارالاسلام میں اسلامی شریعت کی اساس پر قائم ہوتی ہے ۔ حالانکہ یہ سوسائٹی اور دارالاسلام کا علاقہ اس بات کا سب سے زیادہ مستحق ہیں کہ ان کے اندر امن و اطمینان قائم ہو۔

اسی طرح فقہاء کے اندر ملک بدری کے مفہوم کے اندر بھی اختلاف واقعہ ہوا ہے ۔ کیا ملک بدری صرف اس علاقے سے ہوگی جس میں جرم کا ارتکاب ہوا ہے یا اسے اس علاقے سے ملک بدر کردیا جائے گا جس میں اسے پھرنے کی اجازت ہوتی ہے اور یہ مقصد قید سے پورا ہوسکتا ہے یا یہ کہ اسے پورے کرہ ارض سے رخصت کر دیاجائے اور یہ تو سزائے موت ہی سے ممکن ہے۔۔۔۔۔۔۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہی مفہوم اقرب ہے کہ اس مجرم کو اس سرز میں سے باہر نکالا جائے گا جس کے اندر اس نے جرم کا ارتکاب کیا ہے ۔ اسے اس قدر دور پھینک دیا جائے گا کہ وہ وہاں اپنے آپ کو غریب الوطن سمجھے ۔ وہ دھتکارا ہوا اور کمزور ہو اور یہ اس کے اس جرم کی پوری سزا ہے کہ اس نے لوگوں کو پریشاں کیا ‘ خوفزدہ کیا اور اپنی قوت کے بل بوتے پر لوگوں پر دست درازی کی ۔ یہ ملک بدری اس طرح ہو کہ وہ جہاں جائے جرم سے باز آجائے اور اس کا جتھا بھی وہاں نہ ہو یا وہ اپنے جتھے سے دور ہوجائے ۔

(آیت) ” ذَلِکَ لَہُمْ خِزْیٌ فِیْ الدُّنْیَا وَلَہُمْ فِیْ الآخِرَۃِ عَذَابٌ عَظِیْمٌ(33)

” یہ ذلت ورسوائی تو ان کے لئے دنیا میں ہے اور آخرت میں ان کے لئے اس سے بڑی سزا ہے ۔

اس دنیا میں انہیں جو سزا ملے گی ‘ اس سے ان کی سزائے آخرت ساقط نہ ہوجائے گی اور آخرت میں وہ گناہ کی اس گندگی سے پاک نہ ہوں گے ‘ جس طرح بعض دوسرے حدود کے اندر انسان کو سزا ہوجائے تو وہ آخرت کے لئے پاک ہوجاتا ہے ۔ یہ بھی اس سزا میں سختی کرنے کا ایک پہلو ہے اور اس سے اس جرم کو مزید گھناؤنا ظاہر کرنا مقصود ہے ۔ یہ اس لئے کہ دارالاسلام میں اسلامی سوسائٹی اس بات کی مستحق ہے کہ وہ پرامن زندگی بسر کرے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ جو حکومت اسلامی شریعت کے مطابق قائم ہوتی ہے اس کا لوگوں پر یہ حق ہے کہ لوگ اس کے احکام کو تسلیم کریں ۔

اسلامی نظام حکومت کا ماحول ایک بھلائی کا ماحول ہوتا ہے اور وہ اس بات کا مستحق ہوتا ہے کہ اسے پھلنے پھولنے کے مواقع فراہم کئے جائیں نیز اسلامی نظام زندگی ایک ایسا عادلانہ اور مکمل نظام ہے جس کی حفاظت مسلمانوں پر واجب ہوتی ہے ۔

اب یہ باغی اگر اپنی گمراہی کو ترک کردیں اور فساد کو چھوڑ دیں اور اپنے اس جرم کو برا اور منکر سمجھ کر باز آجائیں اور صدق دل سے تائب ہو کر راہ راست پر آجائیں اگرچہ وہ اب بھی ایسی پوزیشن میں ہوں کہ وہ اپنی مہم کو جاری رکھ سکتے ہوں اور اسلامی مملکت ان پر ہاتھ ڈال سکتی ہو ‘ تو ان کا جرم اور اس کی سزا دونوں معاف تصور ہوں گے ۔ اب حکومت کے لئے جائز نہ ہوگا کہ توبہ کرنے والے لوگوں پر ہاتھ دال دیا ۔ اللہ تعالیٰ چونکہ غفور ورحیم ہے ‘ اس لئے حساب آخرت میں بھی انہیں معاف کر دے گا۔