وان خفتم الا تقسطوا في اليتامى فانكحوا ما طاب لكم من النساء مثنى وثلاث ورباع فان خفتم الا تعدلوا فواحدة او ما ملكت ايمانكم ذالك ادنى الا تعولوا ٣
وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا۟ فِى ٱلْيَتَـٰمَىٰ فَٱنكِحُوا۟ مَا طَابَ لَكُم مِّنَ ٱلنِّسَآءِ مَثْنَىٰ وَثُلَـٰثَ وَرُبَـٰعَ ۖ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا۟ فَوَٰحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَـٰنُكُمْ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰٓ أَلَّا تَعُولُوا۟ ٣
وَاِنْ
خِفْتُمْ
اَلَّا
تُقْسِطُوْا
فِی
الْیَتٰمٰی
فَانْكِحُوْا
مَا
طَابَ
لَكُمْ
مِّنَ
النِّسَآءِ
مَثْنٰی
وَثُلٰثَ
وَرُبٰعَ ۚ
فَاِنْ
خِفْتُمْ
اَلَّا
تَعْدِلُوْا
فَوَاحِدَةً
اَوْ
مَا
مَلَكَتْ
اَیْمَانُكُمْ ؕ
ذٰلِكَ
اَدْنٰۤی
اَلَّا
تَعُوْلُوْا
۟ؕ

(آیت) ” وان خفتم الا تقسطوا فی الیتمی فانکحوا ما طاب لکم من النسآء مثنی ثلث وربع ، فان خفتم الا تعدلوا فواحدة او ماملکت ایمانکم ، ذالک ادنی الا تعولوا “۔

حضرت عروہ بن زبیر ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت عائشہ ؓ سے دریافت فرمایا کہ آیت ” اگر تم یتیموں کے ساتھ بےانصافی کرنے سے ڈرتے ہو “۔ کا مفہوم کیا ہے ؟ تو انہوں نے فرمایا بھانجے ! یہ یتیم بچی وہ تھی جو اپنے ولی کی تحویل میں ہوتی تھی ۔ یہ ولی کے ساتھ مال میں شریک ہوتی تھی ‘ اسے اس کے مال اور اس کی خوبصورتی میں دلچسپی ہوتی تھی ، اس طرح اس کا ولی یہ چاہتا تھا کہ اس کے ساتھ نکاح کرلے بغیر اس کے کہ اسے مہر ادا کرے ‘ اور اسے وہ حقوق دے جو اسے دوسرے دلچسپی رکھنے والے دینے کیلئے تیار ہوتے تھے ۔ چناچہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان اولیاء کو یہ حکم دیا کہ ان کے زیر کفالت یتیموں سے صرف اس صورت ہی ہی میں نکاح کرسکتے ہیں جب ان کے ساتھ عدل کرسکیں ، ان کو ان کے معیار کے مطابق مہر ادا کرسکیں ۔ اگر وہ نہیں کرسکتے تو وہ دوسری عورتوں سے نکاح کرلیں۔ “ عروہ فرماتے ہیں ‘ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا ” اس آیت کے نزول کے بعد لوگوں نے حضور ﷺ سے فتوی دریافت کیا تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی ۔ “ ” لوگ عورتوں کے بارے میں تم سے فتوی پوچھتے ہیں ‘ کہو اللہ تمہیں ان کے معاملے میں فتوی دیتا ہے ‘ اور ساتھ ہی وہ احکام بھی یاد دلاتا ہے جو پہلے سے تم کو اس کتاب میں سنائے جارہے ہیں ۔ یعنی وہ احکام جو ان یتیم لڑکیوں کے متعلق ہیں ‘ جن کے حق تم ادا نہیں کرتے اور جن کے نکاح کرنے سے تم باز رہتے ہو ۔ “ (4 : 731) حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے یہ جو کہا ہے ۔ ” اور جن کے نکاح کرنے سے تم باز رہتے ہو ۔ “ یہ اس صورت میں ہوتا ہے کہ اس کے پاس نہ پیسے ہوں اور نہ خوبصورتی ہو ‘ اس لئے انہیں صاحب مال و جمال یتیمہ سے بھی نکاح کرنے سے منع کردیا گیا ‘ الا یہ کہ اس کے ساتھ عدل و انصاف کیا جائے ، اس لئے کہ مال و جمال نہ ہونے کی صورت مین تو وہ ایسی یتیموں سے نکاح نہ کرتے تھے ۔ “ (بخاری)

حضرت عائشہ ؓ کی مذکورہ بالا حدیث سے ایام جاہلیت کی مروجہ رسومات میں سے بعض رسموں کی یہاں تصویر کشی کی گئی ہے اور یہ رسوم جاہلیت کے زمانہ سے اسلامی معاشرے میں بھی ابھی تک موجود تھیں ، اس لئے قرآن کریم کی یہ آیات نازل ہوئیں اور ان کی ممانعت کرکے انکی جڑ کاٹ دی گئی ، غرض یہ رفیع الشان ہدایات دیکر معاملے ، کو پھر انسان کے ضمیر اور اس کے دلی تقوی کے حوالے کردیا جاتا ہے ۔ اور کہا جاتا ہے کہ (آیت) ” وان خفتم الا تقسطوا ” (اگر تم یتیموں کے ساتھ بےانصافی کرنے سے ڈرتے ہو)

اس معاملے کا تعلق محض انسان کے قلب وضمیر کے ساتھ ہے اور اس کے شعور خدا خوفی سے ہے ۔ اگر ولی کو یہ خطرہ ہو کہ وہ عدل نہ کرسکے گا تو اسے چاہئے کہ وہ اس قسم کے نکاح سے اجتناب کرے ۔ لیکن آیت کی عبارت عام ہے ‘ حکم اور ہدایت یہی ہے کہ عدل کے ہر مقام پر عدل کا برتاو کیا جائے ۔ چاہے اس کا تعلق مہر کے معاملے سے ہو یا اس کے علاوہ زندگی کے دوسرے نشیب و فراز سے ہو ‘ مثلا یہ کہ وہ صرف مال کیلئے یہ نکاح کر رہا ہو اور عورت کی ذات سے اسے دلچسپی نہ ہو ‘ یا اسے اس کے ساتھ حسن معاشرے کے سلسلے میں کوئی رغبت نہ ہو ‘ یا یہ کہ مرد اور عورت کی عمر میں بہت زیادہ فرق ہو اور نباہ ممکن نہ ہو ‘ اور نہ نکاح کے معاملے میں مرد سنجیدہ ہو اور بعض اوقات صورت حال یہ ہوتی ہے کہ لڑکی شرم وحیاء کے وجہ سے کچھ کہہ نہیں سکتی یا اسے یہ خطرہ ہوتا ہے کہ اگر اس کا نکاح باہر ہوا تو اس کا مال جاتا رہے گا وغیرہ وغیرہ ‘ جن حالات میں عدل ممکن نہیں ہوتا ، قرآن کریم کا یہ طریق کار یہ ہے وہ ضمیر کے اندر چوکیدار بتھاتا ہے ۔ اور تقوی کی نگرانی قائم کرتا ہے ۔ اس کی پہلی آیت کا خاتمہ ان الفاظ پر ہوا تھا (آیت) ” ان اللہ کان علیکم رقیبا “ (1) (اللہ تم پر نگرانی کررہا ہے)

اگر اولیاء ان یتیم عورتوں کے ساتھ انصاف کرنے کی قدرت اپنے اندر نہیں پاتے تو ان کے علاوہ دوسری عورتیں بہت ہیں ‘ اس لئے بدگمانی اور شبہات سے اپنے آپ کو بچانے کیلئے موزوں یہی ہے کہ وہ دوسری عورتوں سے نکاح کرلیں ۔

(آیت) ” وان خفتم الا تقسطوا فی الیتمی فانکحوا ما طاب لکم من النسآء مثنی ثلث وربع ، فان خفتم الا تعدلوا فواحدة او ماملکت ایمانکم ، ذالک ادنی الا تعولوا “۔

ترجمہ : ” اگر تم یتیموں کے ساتھ بےانصافی کرنے سے ڈرتے ہو تو جو عورتیں تم کو پسندآئیں ان میں سے دو ‘ تین تین ‘ چار چار سے نکاح کرلو ۔ لیکن اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ انکے ساتھ عدل نہ کرسکو گے تو پھر ایک ہی بیوی کرو یا ان عورتوں کو زوجیت میں لاو جو تمہارے قبضہ میں آئی ہیں ‘ بےانصافی سے بچنے کیلئے یہ زیادہ قرین صواب ہے ۔

تعداد ازواج کی یہ رخصت مشروط ہے ۔ یہ کہ اگر تمہیں بےانصافی کا خوف تو نہ کرو صرف ایک کرو ‘ یا اپنی مملوکہ عورتوں میں سے کسی کے ساتھ نکاح کرلو ۔

مناسب یہ ہے کہ ان تحفظات کے ساتھ تعدد ازواج کی رخصت کی حکمت اور مصلحت پر یہاں کچھ کہہ دیا جائے ، خصوصا ہمارے اس دور میں ‘ جس میں لوگ اپنے آپ کو اپنے رب کے مقابلے میں زیادہ عالم سمجھتے ہیں ‘ وہ رب جس نے انہیں پیدا کیا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ وہ انسانی زندگی ‘ انسانی فطرت اور انسانی مصلحتوں کی بابت خالق تعالیٰ کے مقابلے میں زیادہ بصیرت کے مالک ہیں ۔ اور وہ ان معاملات میں محض اپنی ذاتی آراء اور خواہشات نفسانیہ کے تحت کلام کرتے ہیں اور جہالت اور تاریکی میں ٹامک ٹوئیاں مارتے رہتے ہیں ۔ گویا آج کے جدید حالات اور ضروریات کو خود انہوں نے پیدا کیا ہے وہ انہیں اچھی طرح سمجھتے ہیں اور ان حالات کا مقابلہ خود ہی کرسکتے ہیں اور گویا یہ حالات اللہ میاں کے پیش نظر نہ تھے ، نہ اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں اس وقت کوئی فیصلہ کیا ہے جس وقت وہ انسانوں کیلئے قانون سازی کر رہا تھا ۔

اس معاملے میں ایسے حضرات کا دعوی اور ان کے فیصلے جہالت اور کور چشمی پر مبنی ہیں جبکہ ایک پہلو سے یہ ان کی جانب سے نہایت ہی کبرو غرور اور بارگاہ الہی میں کھلی گستاخی ہے ۔ اور اپنے معنوی اعتبار سے یہ گمراہی اور بےراہ روی ہے اور ایک قسم کا کفر ہے ۔ لیکن اس کے باوجود لوگ ایسی باتیں کئے چلے جاتے ہیں اور کوئی نہیں ہے جو ان جاہلوں کور چشموں ‘ متکبرین ‘ بےراہ و کفار کو چیلنج کرے ، حالانکہ وہ اللہ اور اس کی شریعت کے مقابلے میں ایسی جسارت کر رہے ہیں جو ناقابل برداشت ہے ۔ وہ اللہ اور اس کی جلالت شان پر ہاتھ ڈال رہے ہیں ۔ اور اللہ کی ذات اور اس کے تجویز کردہ نظام حیات کے خلاف یہ قبیح حرکت کر رہے ہیں ۔ اور بڑے امن و سکون اور کامیابی اور عافیت کے ساتھ کام کر رہے ہیں اور ان لوگوں کو ان حلقوں سے برملا امداد مل رہی ہے جن کی دلچسپی ہے کہ مسلمانوں اور ان کے دین کے خلاف یہ کام ہوتا رہے ۔

یہ مسئلہ یعنی مسئلہ تعدد ازواج جسے اسلام نے ان تحفظات اور شرائط کے ساتھ جائز رکھا ہے ‘ مناسب ہے کہ اسے بڑی سادگی ‘ وضاحت اور فیصلہ کن انداز میں لیاجائے ۔ اور ان حالات اور واقعات کو پیش نظر رکھا جائے جو کسی معاشرے میں عملا موجود ہوتے ہیں اور اس وقت بھی موجود تھے ۔

امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے اپنی مسند کے ساتھ یہ روایت کی ہے کہ غیلان ابن سلمہ ثقفی اسلام لائے ۔ اس وقت اس کی دس بیویاں تھیں ۔ اسے حضور ﷺ نے حکم دیا : ” ان میں سے چار کو چن لیں ۔ “

امام ابو داود نے روایت فرمائی ہے کہ عمیر اسدی نے فرمایا : جس وقت میں نے اسلام قبول کیا ‘ میری آٹھ بیویاں تھیں ، میں نے اس کا تذکرہ رسول خدا ﷺ سے کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا ” ان میں سے چار کو چن لو “۔

امام شافعی رحمة اللہ علیہ نے اپنی مسند میں فرمایا مجھے ایک شخص نے یہ اطلاع دی جس نے یہ بات ابو الزیاد سے سنی تھی انہیں عبدالمجید نے بتایا تھا ‘ انہیں سہیل ابن عبدالرحمن نے بتایا ‘ انہوں نے عوف ابن الحارث سے نقل کیا ‘ انہیں نوفل ابن معاویہ دیلمی سے انہوں کہا ۔ ” جس وقت میں اسلام لایا میرے ہاں پانچ بیویاں تھیں ، مجھے رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا : ” ان میں سے چار چن لو ‘ جو بھی تمہیں پسند ہوں اور جس ایک کو چاہو علیحدہ کر دو ۔ “

جس وقت اسلام آیا ‘ اس وقت لوگوں کے ہاں دس یا دس سے بھی زیادہ بیویاں ہوا کرتی تھیں ۔ اور بیویوں کی تعداد پر کوئی قید وبند نہ تھا ۔ ان حالات میں اسلام نے تعداد پر یہ پابندی عائد کردی اور حکم دیا کہ کوئی مسلمان اس حد سے آگے نہیں بڑھ سکتا ۔ یعنی وہ صرف چار کی حد تک جاسکتا ہے ۔ اس کے ساتھ اسلام نے مزید ایک اور پابندی عائد کردی ۔ وہ یہ کہ اگر تعداد زیادہ ہو تو ان کے درمیان مکمل عدل اور انصاف کا قائم کرنا بھی فرض ہے ۔ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ وہ انصاف نہ کرسکے گا تو اس پر لازم ہے کہ وہ ایک ہی بیوی پر اکتفا کرے ۔ یا ان عورتوں پر اکتفا کرے جو کسی کی مملوکہ ہیں۔

اس پس منظر سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسلام نے تعدد ازواج کی اجازت بالکل نہیں دی ۔ اسلام نے زیادہ بیویوں کی تعداد کی تحدید کردی ۔ وہ یہ کہ اگر تعداد زیادہ ہو تو ان کے درمیان مکمل عدل اور انصاف کا قائم کرنا بھی فرض ہے ۔ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ وہ انصاف نہ کرسکے گا تو اس پر لازم ہے کہ وہ ایک ہی بیوی پر اکتفا کرے ۔ یا ان عورتوں پر اکتفا کرے جو کسی کی مملوکہ ہیں۔

اس پس منظر سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسلام نے تعدد ازواج کی اجازت بالکل نہیں دی ۔ اسلام نے زیادہ بیویوں کی تعداد کی تحدید کردی اسلام نے اس معاملے کو مرد کی خواہش نفس ہی پر نہیں چھوڑ دیا بلکہ اسے عدل و انصاف کی شرط کے ساتھ مشروط کردیا ۔ اگر عدل نہ ہوگا تو تعدد ازواج کی اجازت نہ ہوگی ۔

اب سوال یہ ہے کہ اسلام نے تعدد ازواج کی رخصت اور اجازت ہی کیوں دی ؟ اسلامی نظام زندگی انسانوں کیلئے وضع کیا گیا ہے ۔ وہ ایک مثبت اور عملی نظام ہے ۔ وہ انسان کی فطرت اور اس کے وجود کے ساتھ ہم آہنگ ہے ۔ وہ انسان کے حالات اور انسان کی ضروریات کے مطابق وضع کیا گیا ہے وہ مختلف حالات ‘ مختلف علاقوں اور مختلف زمانوں میں انسان کے تغیر پذیر شب وروز کو سامنے رکھ کر وضع کیا گیا ہے ۔ وہ فی الواقعہ ایک مثبت اور حقیقت پسندانہ نظام ہے ۔ وہ انسان کو یوں لیتا ہے جس طرح کسی دور میں انسان فی الواقعہ ہوتا ہے ۔ اسنان جہاں کھڑا ہوتا ہے یہ نظام اسی مقام سے اس کے سفر کا آغاز کرتا ہے ۔ اور اسے وہاں سے لیکر ترقیوں کے اعلی مدارج تک بلند کرتا ہے ۔ یہاں تک کہ وہ اسے بام عروج تک پہنچا دیتا ہے وہ انسان کی فطرت حقیقی کا نہ انکار کرتا ہے نہ اسے کراہیت کی نظر سے دیکھتا ہے ۔ وہ انسان کے حقیقی واقعات سے نہ صرف نظر کرتا ہے اور نہ ان سے لاپرواہی برتتا ہے ۔ وہ اس کی رفتار اصلاح و ترقی میں نہ تو تشدد کرتا ہے اور نہ بےاعتدالی کرتا ہے ۔

اسلامی نظام زندگی خالی خوالی ڈھینگ نہیں ہے نہ وہ سوقیانہ گپ شب ہے ‘ نہ وہ خالی اور غیر واقعی مثالی تصور ہے ۔ اور نہ ہی وہ محض تصورات اور امیدوں پر مبنی ہے ۔ جن کا فطرت انسانی کے ساتھ تصادم ہو ‘ جن کا انسان کے واقعات اور حالات کے ساتھ کوئی جوڑ نہ ہو اور جو اس طرح ہو جس طرح بخارات ہوا میں تحلیل ہوجاتے ہیں بلکہ وہ ایک ایسا نظام ہے جو انسان کی تخلیق کو مدنظر رکھتا ہے وہ انسانی معاشرہ میں پاکیزگی کا داعی ہے ‘ اس لئے وہ انسانی معاشرہ میں صرف مادیت کو رواج نہیں دیتا ۔ ایسی مادیت جو انسان کے چہرے بشرے کو خراب کر دے ۔ جو انسانی معاشرے کو آلودہ کر دے اور یہ سب کچھ ان نام نہاد ضرورت کے پھندوں کی صورت میں جو حقائق سے متصادم بلکہ اسلام یہ ہدایت کرتا ہے کہ ایسی صورت حال پیدا کی جائے جس میں تخلیق انسانیت محفوظ ہو ‘ جس میں معاشرہ پاکیزہ ہو ‘ اور یہ سب کچھ بسہولت اور نہایت ہی قلیل جدوجہد سے حاصل کیا جائے اور اس کے لئے فرد اور معاشرے کو کم سے کم جدوجہد کرنا پڑے ۔

اسلامی نظام زندگی کے ان اساسی تصورات کو جب ہم پیش نظر رکھیں اور پھر مسئلہ تعدد ازواج پر غور کریں تو جو نتائج ہمارے سامنے آتے ہیں وہ یہ ہیں :

(1) : سب سے پہلے یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ اکثر معاشروں میں ایسے حالات پائے جاتے ہیں جن میں شادی کے قابل عورتوں کی تعداد اور شادی کے قابل مردوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہے ۔ یہ واقعات گزشتہ تاریخی معاشروں میں بھی رہے ہیں اور دور حاضر کے معاشروں میں بھی پائے جاتے ہیں ۔ نیز عورتوں کی زیادتی کی نسبت 1 : 4 سے کبھی بھی زیادہ نہیں رہی ہے ۔ یہ کمی بیشی ہمیشہ ایک اور چار کے درمیان ہی رہی ہے ۔

اب سوال یہ ہے کہ ہم ایسی صورت حال کا کیا حل کریں گے ، کیونکہ ایسے حالات بار بار پیش آتے ہی رہتے ہیں ۔ اگرچہ ان میں مرد اور عورت کے درمیان نسبت میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے ۔ یہ ایسی صورت حال کا علاج ممکن ہے ؟

کیا محض شانے ہلانے سے اس صورت حال کا علاج ممکن ہے ؟ کیا یہ ممکن ہے کہ ہم ایسی صورت حال سے لاتعلق ہوجائیں اور اسے یونہی چھوڑ دیں ؟ اور جس طرح ممکن ہو حالات اپنا رخ خود متعین کریں اور جو صورت حال پیدا ہو اسے قبول کرتے چلے جائیں ۔

محض شانے ہلانے سے مسائل حل نہیں ہوا کرتے اور کسی معقول انسان کیلئے یہ حل قابل قبول ہے کہ حالات جو بھی رخ اختیار کریں اسے قبول کر کیا جائے ۔ کسی خود دار انسان اور کسی سنجیدہ شخص کے نزدیک یہ موقف قابل قبول نہ ہوگا جو نسل انسانی کو محترم سمجھتا ہو ۔

اس لئے اس بات کی ضرورت ہے کہ کوئی نظم اور ضابطہ موجود ہو اور اس مسئلے کے حل کیلئے کوئی عملی قدم اٹھایا جائے ۔ غور وخوض کرنے کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اس مسئلے کے صرف تین حل ممکن ہیں :

(1) یہ کہ ہر شخص جو شادی کے قابل ہے وہ شادی کی ایک قابل عورت کے ساتھ شادی کرے ۔ اور اس کے علاوہ ایک یا دو دو عورتیں رہتی ہیں ان کو بغیر خاوند کے یونہی چھوڑ دیا جائے اور انہیں ان کی پوری زندگی میں خاوند نہ ملے ۔

(2) یہ کہ ہر وہ شخص جو شادی کے قابل ہے ایک شادی کی قابل عورت کے ساتھ قانونی نکاح کرے اور اس کے ساتھ وہ جائز تعلقات قائم کرے لیکن دوسری عورتوں کے ساتھ وہ دوستی اور حرام اور ناجائز تعلقات قائم کرے یعنی ان عورتوں کے ساتھ جن کے خاوند نہیں ہیں ۔ اس طرح ان کے تعلقات ناجائز تعلقات ہوں اور وہ تاریکی میں زندگی بسر کریں ۔

(3) تیسری صورت یہ ہے کہ شادی کے قابل لوگ ایک سے زیادہ شادی کے قابل عورتوں کے ساتھ شادی کریں ۔ اور اسی طرح ایک مرد ایک سے زیادہ عورتوں کے ساتھ جائز تعلقات قائم کرے اور اس کی بیوی ہو اور کھلے طور پر وہ روشنی اور دائرہ قانون کے اندر اس کے ساتھ زندگی بسر کرے اور چوری اور حرام کاری کا ارتکاب نہ ہو ۔

ذرا غور فرمائیے پہلی صورت خلاف فطرت ہے ۔ اور ایک عورت کیلئے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ پوری زندگی تنہائی میں بسر کرے ۔ اور کسی مرد کے ساتھ تعلق قائم نہ کرے ۔ اس حقیقت کو ان لوگوں کے دعاوی سے رد نہیں کیا جاسکتا ہے جو منہ پھٹ ہیں جو یہ دعوی کرتے ہیں کہ عورت محنت اور مزدوری کرکے مردوں سے مستغنی ہو سکتی ہے ۔ اس لئے کہ ایسے سطحی غیر سنجیدہ اور جاہل گپیں ہانکنے والوں کے فہم وادراک سے یہ مسئلہ بہت ہی اونچا ہے ۔ اس لئے کہ یہ لوگ فطرت انسانی سے بیخبر ہیں ۔ عورت کی ہزار محنت اور اس کی ہزار ملازمتیں بھی اسے اپنی فطری احتیاج اور اپنے فطری تقاضے سے مستغنی نہیں کرسکتیں ۔ چاہے یہ تقاضے اس کے جسمانی تقاضے ہوں یا اس کی عقل اور روح کے تقاضے ہوں ۔ وہ یہ کہ عورت امن و سکون کے ساتھ اپنے خاندان کے اندر رہے اور مرد کسب معاش کیلئے جدوجہد کرے ، اسی طرح مرد بھی اپنی معاشی جدوجہد اور معاشی سرگرمیوں کے بعد اس بات کی ضرورت محسوس کرتا ہے کہ وہ ایک خاندان کی طرف لوٹے ۔ اس معاملے میں مرد اور عورت دونوں برابر ہیں ۔ اس لئے کہ وہ ایک ہی جان سے پیدا ہوئے ہیں اور ان کی ایک ہی فطرت ہے ۔

دوسری صورت اسلام کے پاکیزہ رجحانات کے بالکل متضاد ہے ۔ اور اسلام کے پاکیزہ معاشرتی نظام سے بھی لگا نہیں کھاتا ۔ نیز یہ صورت حال عورت کی اسلامی شرافت کے بھی خلاف ہے ۔ جو لوگ معاشرہ میں عریانی اور فحاشی کے پھیلاو کے خلاف نہیں ہیں ‘ وہ وہی لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں اپنے آپہ کو زیادہ عالم سمجھتے ہیں اور یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی شریعت پر دست درازی کرتے ہیں اور اس فعل کا ارتکاب یہ لوگ محض اس لئے کرتے ہیں کہ اس فعل قبیح سے ان کا ہاتھ روکنے والا کوئی نہیں ہے ۔ بلکہ اس قسم کے لوگ شریعت اسلامیہ کے دشمنوں کی جانب سے ہر قسم کی حوصلہ افزائی پاتے ہیں ۔

اب رہ گئی صرف تیسری صورت حال اور اسلام نے اسے اختیار کیا ہے ۔ اسلام نے صرف تعدد ازواج کی اجازت دی ہے اور اس پر کئی حدود وقیود وعائد کی ہیں اور یہ اجازت اسلام نے اس حقیقی صورت حال کے حل کرنے کیلئے دی ہے جس میں محض شانے ہلانے سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا اور نہ ایسے حقیقی حالات اور مشکلات کا حل محض متفلسفانہ ادعاء سے ممکن ہوتا ہے اور اس تیسری صورت کو اسلام نے اس لئے اختیار کیا ہے کہ یہی اس واقعی صورت حال کا مثبت حل ہے ۔ اور ایک مثبت طرز عمل ہے یعنی یہ کہ انسان کے ساتھ ایسا معاملہ کیا جائے ۔ جس طرح انسان ہے ۔ اپنی موجودہ فطرت اور اپنے موجودہ حالات کے ساتھ ۔ نیز پاکیزہ اخلاق اور ایک صاف اور ستھرے معاشرے کے مقاصد کو پیش نظر رکھتے ہوئے ۔ نیز انسان کو بدکاری اور گندگی کے دلدل سے نکالنے کیلئے اسلام نے جو منہاج تجویز کیا ہے اس کے عین مطابق یعنی نہایت ہی نرمی اور محبت کے ساتھ انسان کا ہاتھ پکڑ کر اسے بام عروج تک پہنچانے کا طریقہ کار۔

یہ تو تھا ایک پہلو ‘ اس کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ انسانی معاشروں میں چاہے وہ قدیم ہوں یاجدید ‘ آج کے ہوں یا کل کے ‘ ان میں ایک دوسری حقیقت نظر آتی ہے ۔ نہ اس سے انکار کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی اسے نظر انداز کیا جاسکتا ہے ۔ وہ یہ کہ مرد میں بچے پیدا کرنے کی قدرت اور صلاحیت ستر سال یا اس کے بھی آگے کی عمر تک طویل ہوتی ہے ۔ جبکہ عورت میں یہ صلاحیت 05 سال کے لگ بھگ ختم ہوجاتی ہے ۔ اس طرح بیس سال ایسے آجاتے ہیں جن میں مرد تو بچے پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن اس کے مقابلے میں عورت بچے پیدا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی ۔ اور یہ حقیقت بھی بالکل واضح ہے کہ مرد اور عورت کو الگ پیدا کرکے ان کے درمیان ملاپ کی زندگی اور نسل انسانی کو جاری رکھنے کا ذریعہ بنایا گیا ہے ۔ اس کرہ ارض کی آبادی کا انتظام انسان کی آبادی میں کثرت اور پھیلاو¿ کے ذریعہ کیا گیا ہے ۔ اس لئے یہ امر خلاف فطرت انسانی ہوگا کہ ہم کوئی ایسی رسم ڈالیں جس سے ایک مرد بیس سال تک اپنے فطری وظائف پورے کرنے کا اہل ہی نہ رہے جبکہ اسلام نے جو قانون بنایا ہے وہ ہر دور کے حالات میں ہر قسم کے معاشروں کیلئے موزوں ہے اور فطری تقاضوں کے ساتھ بھی ہم آہنگ ہے ۔ جبکہ یہ قانون بھی محض اجازت کی شکل میں ہے ۔ یہ بات لازم نہیں کی گئی کہ ہر شخص لازما چار شادیاں کرے ۔ بلکہ ایک عام اباحت دی گئی ہے اور لوگوں کے لئے ایک قسم کی وسعت پیدا کی گئی ہے کہ اگر ان کو ضرورت پڑے تو وہ حالت ضرورت میں اس سے فائدہ اٹھائیں ۔ یہ وہ ہم آہنگی ہے جو خدائی قانون اور انسانی فطرت کے اندر ہمیشہ پائی جاتی ہے ۔ جبکہ اس تناسق اور ہم آہنگی کا خیال انسان کے بنائے ہوئے قوانین میں بالعموم نہیں رکھا جاتا ، اس لئے کہ انسان کا معاملہ ہمیشہ محدود ہوتا ہے اور وہ دور رس انفرادی حالات اور جزئیات کا مطالعہ کرنے سے اکثر قاصر رہتا ہے ۔ اس سے کئی گوشے پوشیدہ رہ جاتے ہیں اور زندگی کے کئی حالات و احتمالات اس کے دائرے سے باہر رہ جاتے ہیں ۔

اس مذکورہ بالا حقیقت کے حوالے سے بعض اوقات یوں ہوتا ہے کہ مرد زیادہ بچے پیدا کرنے کا خواہش مند ہوتا ہے جبکہ عورت کو مزید بچے پیدا کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی ۔ یہ عدم دلچسپی بعض اوقات کبرسن کی وجہ سے ہوتی ہے اور بعض اوقات بیماری کی وجہ سے ہوتی ہے اور ان حالات میں فریقین کی دلی خواہش بھی ہوتی ہے کہ وہ رشتہ زوجیت میں بندھے رہیں اور ایک دوسرے سے علیحدگی اختیار نہ کریں ۔ اب ایسے حالات میں ہم کیا حل پیش کریں گے ۔

کیا محض شانے اچکانے سے یہ مسائل حل ہوجائیں گے ؟ یا اس طرح مسئلہ حل ہوگا کہ زوجین میں سے کوئی فریق اپنے سر کو دیوار سے پھوڑ دے یا ان وسائل اور حقیقی سوالات کا جواب ہم محض گپ شپ میں ٹال دیں اور ظریفانہ بذلہ سنجیاں کرتے ہوئے آگے بڑھ جائیں ۔

حقیقت یہ ہے کہ بذلہ سنجیوں اور محض شانے اچکانے سے کبھی حقیقی مسائل حل نہیں ہوا کرتے ۔ زندگی اور اس کے فطری حقائق سنجیدہ امور ہیں ۔ زندگی کی مشکلات حقیقی ہوتی ہیں اور ان کا حل بھی حقیقت پسندی سے ممکن ہے ۔

اس سوال کا حل بھی صرف تین طریقوں سے ممکن ہے ۔

(1) یہ کہ ہم مرد پر یہ پابندی عائد کردیں کہ وہ پچاس سال کے بعد فطری وظائف کی ادائیگی بند کر دے اور ہم اسے کہہ دیں کہ اسے مرد ‘ اب یہ بات تمہارے ساتھ نہیں جڑتی ، نیز آپ کے نکاح میں جو عورت موجود ہے اس کی کرامت و شرافت اور عزت واحترام اور حقوق کے یہ بات منافی ہے ۔

(2) دوسری صورت یہ ہے کہ ہم ایسے شخص کو آزاد چھوڑ دیں اور وہ جس عورت سے چاہے دوستیاں گانٹھتا پھرے ۔

(3) تیسری صورت یہ ہے کہ ہم اسے اجازت دیدیں کہ وہ ایک سے زیادہ بیویاں رکھ سکے ۔ اپنے حالات اور اپنی ضروریات کے مطابق اور ہم پہلی بیوی کو طلاق دلوانے سے بھی بچ جائیں ۔

جہاں تک پہلی صورت کا تعلق ہے وہ انسانی فطرت کے خلاف ہے ۔ یہ تجرد انسانی نفس برداشت ہی نہیں کرسکتا ۔ انسانی اعصاب اور انسانی نفس اس پابندی کو برداشت نہیں کرسکتا ۔ اور اگر ہم بذریعہ قانون اور قوت یہ پابندی عائد کردیں کہ اس صورت میں تو معاشرے کیلئے عائلی زندگی عذاب جہنم بن جائے گی اور ہر شخص عائلی زندگی کو ان مشکلات ومصائب کی وجہ سے پسند نہیں کرے گا اور اس کے خوفناک نتائج نکلیں گے ، اور یہ سب امور وہ ہیں جنہیں اسلام کسی معاشرے کیلئے پسند نہیں کرتا ‘ اس لئے کہ اسلام کی پالیسی تو یہ ہے کہ وہ ایک گھر کو پرسکون بنادے اور مرد کیلئے اس کی بیوی کو محبوبہ اور لباس بنا دے ۔

دوسری صورت اسلام کے اخلاقی رجحانات کے خلاف ہے ۔ اور انسانی زندگی کی ترقی جس نہج پر اسلام چاہتا ہے وہ اس کے بھی خلاف ہے ۔ نیز انسانی معاشرے کی تطہیر اور پاکیزگی کیلئے اسلام نے جو منہاج اپنایا ہے ‘ یہ اس کے بھی خلاف ہے ۔ اس لئے کہ اسلام انسانی معاشرے کو اس لائق بناتا ہے جو ایک حیوانی مقام سے اس کو انسان کے اشرف مقام تک بلند کر دے ۔

اب صرف تیسری صورت رہ جاتی ہے جو انسان کی واقعی فطری ضروریات کو بھی پوا کرتی ہے ۔ وہ اسلام کے اخلاقی نقطہ نظر سے بھی ہم آہنگ ہے ، یہ صورت پہلی بیوی کے حقوق زوجیت کو بھی مدنظر رکھتی ہے اور اس صورت میں بھی یہ ممکن ہے کہ زوجین اپنی خواہش کے مطابق اپنی ازدواجی زندگی جاری رکھ سکیں ۔ اور ان کی ایک دوسرے کے ساتھ جو یادیں وابستہ ہیں وہ بھی اپنی جگہ قائم رہیں ۔ اور انسان کیلئے یہ ممکن اور آسان ہوجائے کہ وہ نرمی ‘ سہولت اور حقیقت پسندی کے ساتھ اپنی زندگی کو ترقی کی جانب گامزن رکھے ۔

اور یہی صورت حال اس وقت درپیش آجاتی ہے جب کسی کی بیوی بانج ہوتی ہے ۔ اور مرد کی یہ فطری خواہش ہوتی ہے کہ اس کی اولاد ہو ‘ ایسے حالات میں بھی صرف دو صورتیں ہوتی ہیں کوئی تیسری صورت نہیں ہوتی ۔

(1) یہ کہ اسے خاوند طلاق دیدے اور دوسری بیوی لا کر اس کے ذریعہ وہ حصول اولاد کی فطری خواہش کو پورا کرے ۔

(2) یہ کہ وہ دوسری بیوی بھی کرے لیکن پہلی کو بھی اپنی زوجیت میں رکھے اور اس کے حقوق ادا کرے ۔

ہمارے دور میں بعض مرد اور عورتیں اپنے آپ کو دانشور ظاہر کر کے ایسے بکواس کرتے ہیں کہ تعدد ازواج کے مقابلے میں پہلی صورت بہتر ہے لیکن کم از کم 99 عورتیں ایسی ہوں گی جو طلاق کے مقابلے میں ایسے حالات میں تعدد ازواج کو ترجیح دیتی ہیں ۔ اور اگر انکو کوئی یہ مشورہ دے کہ وہ طلاق لے لیں تو وہ اس کے منہ پر تھوکیں گی اور ان مشیران کرام پر لعنت بھیجیں گی جو ان کو یہ مشورہ دیتے ہیں کہ بستے گھر خراب ہوں اور اس خرابی کے عوض انہیں کچھ بھی ہاتھ نہ آئے ۔ اس لئے کہ اگر کسی عورت کا بانجھ پن ظاہر ہوچکا ہو اور وہ طلاق لے لے تو کون ہے جو اسے نکاح میں لینے کیلئے تیار ہوگا ؟ اس کے مقابلے میں اکثر یوں ہوتا ہے کہ ایک بانجھ عورت پر جب خاوند دوسری شادی کرتا ہے تو دوسری عورت کے جو بچے پیدا ہوتے ہیں ان کے ساتھ سابق بیوی کو بہت ہی انس و محبت ہوتی ہے ۔ اس لئے کہ کسی گھر میں بچے تو پھول کی طرح ہوتے ہیں اور جب اس قدر انتظار کے بعد وہ کسی گھر میں آتے ہیں تو اس سے احساس محرومی ختم ہوجاتا ہے اور گھر میں چہل پہل پیدا ہوجاتی ہے ۔

غرض ہم جہاں بھی جائیں اور انسانی زندگی کا حقیقت پسندانہ عملی مطالعہ کریں ‘ تو یہ حالات تعدد زوجات کے خلاف کسی بکواس کی تائید نہیں کرتے ‘ نہ ان نام نہاد دانشوروں کی آراء کی کہیں سے تائید حاصل ہوتی ہے ۔ زندگی کے واقعات وحقائق ان دانشوروں کی سطحی گپ شب اور بےراہ روی اور آزادی فکر وعمل کی تائید نہیں کرتے اس لئے کہ یہ موضوع نہایت ہی سنجیدہ ہوتا ہے اور اس میں گپ کے بجائے قطعی اور فیصلہ کن موقف کی ضرورت ہوتی ہے غرض زندگی کے حقائق پر گہرے غور وفکر کے نتیجے ہی میں باری تعالیٰ کی وہ گہری حکمت واضح ہوتی ہے جس کی وجہ سے اس نے تعدد زوجات کو قرآن کے عائد کردہ حدود و شرائط کے ساتھ جائز قرار دیا ہے ۔ فرماتے ہیں ۔

(آیت) ” فانکحوا ما طاب لکم من النسآء مثنی وثلث وربع فان خفتم الا تعدلوا فواحدة “۔

ترجمہ : ” جو عورتیں تم کو پسندآئیں ان میں سے دو ‘ تین تین ‘ چار چار سے نکاح کرلو ۔ لیکن اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ انکے ساتھ عدل نہ کرسکو گے تو پھر ایک ہی بیوی کرو۔ “

تعدد زوجات کی یہ رخصت اور اجازت زندگی کے عملی حقائق اور تقاضائے فطرت کے پیش نظر دی گئی ہے ۔ اس کے ذریعہ شریعت نے انسانی معاشرے کو بتقاضائے فطرت اور زندگی کے حقائق کے دباو میں بےراہ روی اور نفسیاتی کشمکش میں مبتلا ہونے سے بچا لیا ہے اور اس اجازت کو جس شرط سے مشروط کیا گیا ہے ‘ اس کے ذریعہ عائلی زندگی کو انارکی ‘ افراتفری سے بچایا گیا ہے ۔ نیز بیوی کو بھی خانگی ظلم وستم سے بچایا گیا ہے ۔ نیز اس کی وجہ سے عورت کی عزت کو بھی محفوظ کردیا گیا ہے ۔ اور غیر ضروری طور پر توہین آمیز سلوک سے محفوظ کردیا گیا ہے ۔ اور احتیاط کامل کے ساتھ عورت کو ایسے مواقع سے بچا لیا گیا کہ جن میں اس کے ساتھ توہین آمیز سلوک کیا جائے ۔ اور ضروری حالات اور زندگی کے تلخ حقائق کے پیش نظر تعدد زوجات کی اجازت کے ساتھ ساتھ عورت کیلئے مکمل عدل و انصاف کی ضمانت دی گئی ہے ۔

جو شخص اسلام کی روح اور اس کی پالیسی کا ادراک رکھتا ہو ‘ وہ ہر گز یہ نہیں کہہ سکتا کہ تعدد ازواج اسلام میں بذاتہ مطلوب ہے اور بغیر فطری اور اجتماعی معاشرتی ضروریات کے جائز ہے ۔ اور اس کیلئے محض حوانی لذتیت اور ایک بیوی کو چھوڑ کر دوسری اختیار کرلینا ہی وجہ جواز ہے ۔ جس طرح ایک شخص ایک دوست کو چھوڑ کر دوسرے دوست کو اختیار کرلیتا ہے ۔ بلکہ اسے ایک حقیقی صورت میں جائز کیا گیا ہے ۔ بعض معاشرتی مشکلات پر قابو پانے کیلئے اسے جائز کیا گیا ہے ۔ اور ایسی مشکلات ہر معاشرے میں زندگی کا لازمہ ہوتی ہیں ۔

اب اگر انسانی تاریخ کے کسی دور میں بعض لوگوں نے اس اسلامی اجازت اور رخصت سے غلط فائدہ اٹھایا اور انہوں نے اس اجازت سے فائدہ اٹھا کر عائلی زندگی کو حیوانی لذتیت کیلئے ایک اسٹیج بنادیا اور انہوں نے بیویوں کو اس طرح بدلنا شروع کردیا جس طرح دوستوں میں تبدیلی آجاتی ہے تو اس صورت حال کا اسلام ذمہ دار نہیں ہے ۔ اور نہ اس قسم کے عیاش لوگ اسلام کے نمائندے ہو سکتے ہیں ۔ اس قسم کے لوگ پستی کے ایسے گہرے گڑھے میں محض اس لئے گر گئے ہیں کہ وہ اسلام سے دور ہوگئے تھے ۔ اور اسلام کی پاک وصاف اور شریفانہ روح کا وہ ادراک نہ کرسکے ۔ پھر اسے لوگ ایسے معاشروں میں رہ رہے تھے ‘ جن پر اسلام کی حکمرانی نہ تھی ان میں اسلام کا نظام قانون ‘ اسلامی شریعت نافذ نہ تھی ‘ ان معاشروں پر اسلامی قوانین غالب نہ تھے ، تاکہ وہ اسلامی پالیسی اور اسلامی شریعت کے مطیع فرمان ہوتے ‘ لوگ اسلام کی تعلیمات اور اسلام کی شریعت پر عمل پیرا ہوتے اور اسلام آداب اور اسلامی روایات کا لحاظ رکھتے ۔

اسلام کی عائلی زندگی میں گزشتہ اسلامی تاریخ کے دوران جو نقائص پیدا ہوئے ان کے ذمہ دار وہ معاشرے ہیں جو اسلام کے دشمن تھے جنہوں نے اپنے آپ کو اسلامی شریعت اور اسلامی قانون سے آزاد کرلیا تھا ‘ یہی معاشرے ان ” محلات “ اور ان ” حریموں “ کے ذمہ دار تھے جو انتہائی گھٹیا انداز میں وجود میں آئے اور یہی معاشرے اس امر کے ذمہ دار تھے جنہوں نے عائلی زندگی کو حیوانی لذت کوشی کا اسٹیج ڈراما بنایا ۔ اس لئے جو لوگ عائلی زندگی سے ان عیوب کو دور کرنا چاہتے ہیں اور اسے صحت مند اصولوں پر استوار کرنا چاہتے ہیں انہیں چاہئے کہ وہ لوگوں کو اسلامی نظام حیات اور اسلامی شریعت کی حکمرانی کی طرف لوٹائیں ۔ انہیں چاہئے کہ وہ معاشرے کو پاکیزگی طہارت ‘ استقامت اور اعتدال کی اساس پر از سر نو استوار کرنے کی جدوجہد کریں جو بھی مصلح ہے اور اصلاح چاہتا ہے ۔ اسے چاہئے کہ بس لوگوں کو اسلامی نظام حیات کی طرف لوٹائے ۔ اگر کوئی صرف اس ایک عائلی پہلو میں اصلاح چاہتا ہے تو یہ ممکن نہیں ہے ، پورے نظام حیات کے اندر انقلاب ضروری ہے ۔ اس لئے کہ اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے اور وہ صرف اس صورت میں ہی قائم ہو سکتا ہے کہ اسے پورے طور پر اور ہر پہلو سے قائم کیا جائے ۔

یہاں جس عدل کا ذکر کیا ہے اور جو مطلوب ہے ‘ وہ ہمہ گیر عدل ہے ۔ معاملات میں عدل ‘ خرچ میں عدل ‘ حسن معاشرت میں بیویوں کے درمیان عدل ‘ ہم بستری میں سب کے ساتھ عدل ‘ رہی یہ بات کی دلی احساسات میں عدل اور نفس انسانی میں پائے جانے والے گہرے میلان کے اندر عدل تو اسلام اس کا مطالبہ کسی انسان سے نہیں کرتا۔ اس لئے کہ گہرے نفسیاتی میلانات ورجحانات انسان کے دائرہ ضبط و ارادہ سے خارج ہوتے ہیں ۔ اس عدل سے مراد وہ عدل ہے جس کی تشریح اللہ تعالیٰ نے اس سورت میں دوسری جگہ خود کردی ہے ۔ ” اور تم ہر گز عورتوں کے درمیان مکمل عدل نہیں کرسکتے ہو ‘ اگرچہ تم بہت چاہو ‘ ‘ اس لئے پوری طرح ایک ہی طرف مائل نہ ہو جاو جس کا نتیجہ یہ ہو کہ دوسری عورت معلق ہو کر رہ جائے “۔ بعض تجدد پسندوں نے اس آیت سے یہ معانی نکالے ہیں کہ چونکہ مکمل عدل ممکن نہیں ہے ‘ اس لئے تعدد ازواج نتیجتا حرام ہوگیا ۔ حالانکہ مفہوم یہ نہیں ہے ۔ اسلامی شریعت ایک نہایت ہی سنجیدہ قانون ہے ‘ اس میں اس قسم کا مزاح نہیں کیا جاتا کہ وہ ایک آیت میں ایک بات کو جائز قرار دیدے اور ساتھ ہی دوسری آیت میں بالواسطہ اس اجازت کو واپس لے لے ۔ مثلا دائیں ہاتھ سے کوئی کسی کو کچھ دے اور بائیں ہاتھ سے چھین لے ۔ اس لئے پہلی آیت میں جس عدل کا ذکر ہے اور ہدایت دی گئی ہے کہ اگر تم ایسا عدل نہیں کرسکتے تو صرف ایک ہی بیوی پر اکتفاء کرو ‘ اس سے مراد معاملات زندگی نفقات ازواج ‘ معاشرتی سلوک ‘ اور مباشرت میں عدل ہے ۔ نیز ان چیزوں کے علاوہ زندگی کے تمام مظاہر میں عدل و مساوات ہے ۔ اسی طرح کے بظاہر کسی ایک بیوی کی حیثیت دوسری سے کم نہ نظر آئے ۔ کسی ایک کو دوسری بیویوں پر ترجیح نہ دی جائے جس طرح حضور اکرم ﷺ کی سیرت طیبہ سے معلوم ہوتا ہے کہ باوجود اس کے کہ آپ ﷺ افضل البشر تھے ۔ اور آپ کے تمام ساتھیوں اور پڑوسیوں کو یہ معلوم تھا کہ آپ کو حضرت عائشہ ؓ کے ساتھ زیادہ محبت تھی اور آپ کے قلبی جذبات میں عائشہ ؓ کی جگہ زیادہ تھی ۔ اور اس مقام میں اس کے ساتھ آپ ﷺ کی دوسری ازواج مطہرات میں سے کوئی شریک نہ تھا ۔ اس لئے کہ کسی شخص کو اپنے دل پر کوئی کنٹرول نہیں ہوتا ۔ دل تو اللہ میاں کی دو انگلیوں کی گرفت میں ہیں اور یہ اللہ میاں کی مرضی ہوتی ہے کہ قلوب کو جس طرح پھیر دے ۔ حضور اکرم ﷺ اپنے دین سے بھی اچھی طرح باخبر تھے ۔ اور اپنے دلی جذبات سے بھی وہ اچھی طرح واقف تھے ۔ آپ فرمایا کرتے تھے ۔ ” اللہ ! یہ تو وہ تقسیم ہے جو میرے کنڑول میں ہے ‘ اور میں نے کردی ہے ۔ پس آپ مجھے اس معاملے میں ملامت نہ کیجیو جس پر مجھے کنٹرول نہیں ہے ‘ جو تیرے ہاتھ میں ہے ۔ “۔ (1) (ابو داود ‘ ترمذی اور نسائی)

اس موضوع پر بات ختم کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ ہم دوبارہ اس نکتے کی وضاحت کردیں ۔ اس دنیا میں اسلامی نظام حیات نے تعدد زوجات کے اصول کو رائج (Introkluce) نہیں کیا ۔ بلکہ موجودہ نظام لاتعداد تعدد زوجات میں چار کی حد تک تحریر کردی ، نیز اسلام نے یہ حکم نہیں دیا کہ تم خواہ مخواہ ایک سے زیادہ بیویاں رکھو بلکہ اسلام نے اس کی اجازت دی اور اس اجازت کو شرط وقیود میں مقید کیا ۔ اور اجازت بھی اس لئے دی کہ انسانی زندگی کے حقیقی مسائل اور مشکلات کا حل نکالا جائے ۔ اور بعض حالات میں انسانی فطرت کے تقاضوں کی ضرورت کو پورا کیا جائے ۔ یہ فطری تقاضے اور حقیقی ضروریات زندگی جن کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے ‘ وہ جن میں سے کچھ کا معمولی ادراک ابھی تک نہیں ہوا ہے ‘ لیکن ان میں سے بعض حالات زندگی بھی ہوں گے جن کا وقوع مستقبل میں ہوگا ۔ جن میں یہ رخصت کام آئے گی ، جس طرح اسلامی نظام زندگی کی ہدایات اور اسلامی شریعت کی حکمتوں کا ظہور آئے دن ہوتا رہتا ہے ۔ کیونکہ یہ ربانی نظام زندگی ہے اور انسان کا فہم وادراک اپنی گزشتہ تاریک میں اس کی تمام حکمتوں اور مصلحتوں کے احاطے سے قاصر رہا ہے ۔ اس لئے کہ ہر اسلامی قانون سازی میں مصلحت اور حکمت پوشیدہ ہوتی ہے ۔ چاہے انسانی فہم اس کا ادراک کرسکے یہ نہ کرسکے یا اس کا ادراک انسانی تاریخ میں فہم انسانی کو پہلے حاصل ہو یا کچھ عرصہ بعد میں حاصل ہو ‘ اس لئے کہ یہ فہم نہایت ہی محدود ہے ۔

اب ہم اس انتظام پر بحث کرتے ہیں جو مکمل عدل و انصاف نہ کرسکنے کی ضرورت میں اسلام نے کیا ہے ۔

(آیت) ”۔ فان خفتم الا تعدلوا فواحدة او ماملکت ایمانکم ، “

ترجمہ : ” لیکن اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ انکے ساتھ عدل نہ کرسکو گے تو پھر ایک ہی بیوی کرو یا ان عورتوں کو زوجیت میں لاو جو تمہارے قبضہ میں آئی ہیں ۔

یعنی اگر عدل قائم نہ رکھ سکنے کا اندیشہ ہو تو پھر یہ صورت متعین ہوجاتی ہے کہ ایک ہی بیوی پر اکتفاء کرو ۔ اس صورت میں ایک سے زیادہ کی اجازت ختم ہوجاتی ہے یا ان عورتوں کو جو تمہارے قبضے میں ہیں ۔ “ بطور لونڈی استعمال کرو یازوجیت میں لو ‘ اس لئے کہ آیت کے الفاظ نے کسی صورت کی تحدید نہیں کی ہے ۔

فی ظلال القرآن کے پارہ دوئم کی تفسیر میں ہم نے غلامی کے مسئلے پر ایک مختصر بحث کی تھی ۔ یہاں مناسب ہے کہ غلام عورتوں کے ساتھ مباشرت کرنے کے مسئلے پر قدرے بحث ہوجائے ۔

مملوکہ عورتوں کے ساتھ نکاح کرنے سے ان کا اعتماد ‘ ان کی شرافت اور انسانی عزت نفس بحال ہوجاتی ہے ۔ اس نکاح کی وجہ سے انہیں آزادی حاصل ہوجاتی ہے ۔ اور اس کے ساتھ ہی اس عورت کی اولاد بھی آزاد ہوجاتی ہے ۔ اگر نکاح کے وقت اسے خاوند آزادی نہ بھی دے تو بھی بچہ پیدا ہونے کے بعد وہ ام ولد کہلاتی ہے ۔ اس کا مالک اسے اب فروخت نہیں کرسکتا ۔ مالک کی وفات کے بعد وہ آزاد ہوجاتی ہے ۔ اس سے قبل اس کی اولاد پیدا ہوتے ہیں آزاد ہوتی ہے ۔

اور اگر کوئی مالک نکاح کے بغیر ہی اپنی مملوکہ کے ساتھ مباشرت کرے تو بھی جب وہ بچہ دیدے ” ام ولد “ بن جاتی ہے ۔ اب اس کی فروخت ممنوع ہوجاتی ہے ۔ اور مالک کی وفات کے بعد وہ آزاد ہوجاتی ہے ۔ نیز اگر مالک اپنی لونڈی کے بچے کے نسب کا اعتراف کرلے تو وہ بھی آزاد تصور ہوتا ہے ۔ اور یہ اعتراف بالعموم لوگ کرتے ہیں ۔

لہذا غلام عورتوں کی آزادی کیلئے اسلام نے جو مختلف تدابیر (Devices) وضع کی ہیں ‘ انمیں سے اپنی لونڈی کے ساتھ نکاح اور ہم بستری بھی ان کی آزادی کا ایک طریقہ ہے ۔ البتہ بعض اوقات بغیر نکاح کے مملوکہ کے ساتھ ہم بستری کا فعل دل کو کھٹکتا ہے ۔ لیکن ہمیں یہ حقیقت پیش نظررکھنا چاہئے کہ غلامی کا مسئلہ ایک اجتماعی ضرورت تھی اور اب بھی ہے ۔ جیسا کہ ہم نے اس سے قبل بیان کیا کہ اسلامی حکومت کا ایک سربراہ ‘ جو شریعت کا نافذ کرنے والا ہو اور اگر اعلان جنگ کردیتا ہے تو اس صورت میں قید میں آنیوالی عورتوں کا غلام ہونا جس طرح ایک اجتماعی اور بین الاقوامی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح ان عورتوں کے ساتھ ہم بستری کرنا بھی ایک اجتماعی ضرورت ہوتی ہے ۔ اس لئے کہ اسلامی کیمپ سے آزاد عورتیں جو دشمن کی غلامی میں جاتی تھیں ان کا انجام ان عورتوں سے برا ہوتا تھا جو کفار کے کیمپ سے گرفتار ہو کر اسلامی کیمپ میں آتی تھیں ۔

پھر یہ بات بھی ہمارے پیش نظررہنی چاہئے کہ ان گرفتار ہونیوالی عورتوں کے بھی تو کچھ فطری مطالبات اور خواہشات ہوا کرتی ہیں ۔ اور ان خواہشات اور میلانات کا مدنظر رکھنا بھی ضروری ہے ۔ اور اسلام جیسا پسند نظام زندگی ان حقیقی فطری جذبات کو ہر گز نظر انداز نہیں کرسکتا ۔ اس لئے کہ یہ نظام ہی بذات خود فطری اصولوں پر استوار ہے ۔ اب عورت اسیر عورت کے ان فطری خواہشات کو پورے کرنے کے طریقے یا تو یہ ہو سکتے ہیں کہ ان کو مالک یا غیر مالک کے نکاح میں دیدیا جائے یا مالک کو اگر ضرورت ہو تو وہ مملوکہ کے ساتھ ہم بستری کرے ۔ جب تک غلامی کا نظام قائم ہو یا ان کو آزادانہ اجازت دیدی جائے کہ وہ جہاں چاہیں جنسی خواہش پوری کریں ۔ اس آخری صورت میں پورے اسلامی معاشرے میں جنسی انار کی اور جنسی بےراہ روی کے پھیلنے اور عام ہونے کا خطرہ لازما موجود ہوگا اور اس صورت میں جنسی تعلقات پر کوئی ضابطہ نافذ نہیں ہو سکے گا ۔ اس لئے کہ اس طرح انہیں جسم فروشی اور جنسی دوستی کی مکمل آزادی ہوگی ۔

اور یہ صورت حال دور جاہلیت میں ’ اسلام سے قبل عملا موجود تھی ۔

قرن اول کے بعد اسلامی تاریخ کے بعض ادوار میں لونڈیوں کی جو کثرت رہی ۔ لونڈی کی یہ فوج خریداری ‘ بردہ فروشی اور اغوا کے ذریعہ پیدا کی گئی ، انہیں بڑے بڑے محلات میں جمع کیا گیا ، اور انہیں حیوانی جنسی تلذذ کا ذریعہ بنایا گیا ۔ اور ان لونڈیوں کے غولوں میں رنگیں راتیں بسر ہوتی رہیں ‘ رقص و سرود اور ناو ونوش کے بازار گرم رہے اور اسلامی تاریخ میں بعض لوگوں نے اس کی حقیقت پسندانہ تصویر کشی کی اور بعض نے اس میدان میں مبالغہ آرائی سے کام لیا تو یہ سب کچھ اسلام نہ تھا ‘ نہ یہ اسلام کا کوئی کارنامہ تھا ‘ نہ اسلام نے کسی کو ایسی کوئی ہدایات دی تھی ۔ اور نہ یہ بات درست ہوگی کہ اس قسم کے واقعات کو اسلام کے کھاتے میں ڈالا جائے ، اور نہ اس بات کی اجازت دی جاسکتی ہے کہ ان واقعات کو اسلام کی حقیقی تاریخ کا حصہ قرار دیا جائے ۔

اسلامی تاریخ کا حصہ وہ واقعات ہوں گے جو اسلامی نظریہ حیات اسلامی تصور زندگی اور اسلامی اقدار اور پیمانوں کے مطابق رد بعمل لائے جائیں ۔ رہے وہ واقعات جو ان معاشروں میں رد بعمل لائے گئے جو اپنی نسبت اسلام کی طرف کرتے رہے ہیں اور جو اسلامی اصول و مبادی کے مطابق نہیں تھے ‘ تو یہ بات بالکل قرین انصاف نہ ہوگی کہ ان واقعات کو اسلام کے کھاتے میں ڈالا جائے ، اس لئے کہ یہ واقعات تو درپیش اس لئے ہوئے کہ لوگوں نے اسلامی نظام زندگی سے انحراف کیا ۔

حقیقت یہ ہے اسلام مسلمانوں کی زندگی سے باہر اپنا ایک ڈھانچہ رکھتا ہے ۔ اور ہر دور میں اسلام کا اپنا ڈھانچہ رہا ہے ۔ اس لئے کہ مسلمانوں نے اسلامی نقشہ یا ڈھانچہ تیار نہیں کیا بلکہ یہ اسلامی نظام زندگی کا نقشہ ہے جس نے دنیا میں مسلمان تیار کئے ہیں اور مسلمانوں کی ایک سوسائٹی وجود میں آئی ہے ۔ اسلام اصل ہے اور مسلمان اس کیلئے فرع کا درجہ رکھتے ہیں ۔ اسلام کے پیدا کرنے سے مسلمان پیدا ہوئے ہیں ، اس لئے اسلام وہ نہیں ہے جسے لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ اسلام ہے نہ اسلام وہ افعال و اعمال ہیں جن کا ارتکاب اہل اسلام کرتے ہیں بلکہ لوگوں کے وہی افعال واطوار اسلام ہوں گے جو اسلامی اصول حیات اور اسلام تصور حیات کے مطابق ہوں گے اور اصل ڈھانچہ اصولی اسلام ہے جس کے مطابق ہم لوگوں کی علمی زندگی کو پرکھیں گے کہ وہ کس قدر اسلام کے مطابق ہے اور کس قدر اسلام کے خلاف ہے ۔

لیکن دنیا میں چلنے والے دو نظامہائے زندگی جو انسانوں کے اپنے نظریات کی اساس پر بنائے جاتے ہیں یا ان کی اساس خود انسان کے بنائے ہوئے مذاہب پر ہوتی ہے ان کا معاملہ اس سے مختلف ہے ۔ اس لئے کہ جب یہ لوگ اسلام کو چھوڑ کر از سر نو جاہلیت میں داخل ہوجاتے ہیں تو یہ لوگ گویا اللہ کا انکار کردیتے ہیں اگرچہ انکادعوی یہ ہو کہ وہ اللہ کے ماننے والے ہیں ۔ اس لئے کہ اللہ پر ایمان لانے کا پہلا مظاہرہ یہ ہوتا ہے کہ ایک مومن اپنا نظام اسلامی منہاج سے اخذ کرے اسے اسلامی شریعت پر استوار کرے ۔ اس عظیم اصولی قاعدے کے بغیر ایمان کا کوئی اعتبار نہیں ہے ۔ یہ اس لئے کہ اس صورت میں لوگوں کے نزدیک تغیر پذیر مفاہیم اور بدلتے زندگیوں میں نافذ کرتے ہیں ۔

رہی صورت حال اسلامی نظام حیات کی تو اسلامی نظام کو لوگوں نے خود اپنے لئے وضع نہیں کیا ہے اس کی تشکیل اور تشریح رب الناس نے ان کیلئے کی ہے جو ان کا خالق بھی ہے ‘ مالک بھی ہے اور رازق بھی ہے ۔ تو اس نظام میں لوگ یا تو اس کی اطاعت کریں گے اور اوضاع واطوار کو اس کے مطابق استوار کریں گے تو ان لوگوں کے شب و روز اسلامی تاریخ کے شب وروز ہوں گے ۔ یا صورت حال یہ ہوگی کہ وہ اس سے انحراف کریں گے یا ” کلینا “ اسے ترک کریں گے تو اس صورت میں ان کے شب وروز اسلامی تاریخ کا حصہ تصور نہ ہوں گے ۔ اسے اسلامی تاریخ سے انحراف تصور کیا جائے گا ۔

اسلامی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہوئے اسی نقطہ نظر کا لحاظ رکھنا اشد ضروری ہے ۔ اسی نقطہ نظر سے اسلام کے تاریخی تصور کو سمجھا جاسکتا ہے ۔ اسلام کا تاریخی تصور تمام دوسرے تاریخی تصورات سے مختلف ہے ۔ اس لئے کہ دوسری سوسائٹیوں کے نظریات میں ان سوسائٹیوں کی عملی صورت حال کو بھی پیش نظر رکھا جاتا ہے ۔ اور اسے کسی نظریہ اور مذہب کی عملی تعبیر تصور کیا جاتا ہے ۔ اس عملی مظہر کے مطابق پھر اس مذہب یا نظریہ کے اندر نرمی اور تبدیلی پر بحث کی جاتی ہے ۔ یعنی نظریہ پر بحث اس سوسائٹی کو پیش نظر رکھ کر کی جاتی ہے ۔ جو سوسائٹی اس نظریہ ایمان رکھنے کا دعوی کرتی ہے ۔ اور اس سوسائٹی کے اندر اس نظریہ کی بابت جو فکری تغیرات ہوتے ہیں اس پر بحث کی جاتی ہے ۔ اس کے بعد یہ لوگ اس منہاج بحث کو اسلامی نظام کے مطالعہ پر بھی منطبق کرتے ہیں حالانکہ اسلام کی اپنی منفرد نوعیت کی وجہ سے یہ منہاج بحث اس پر چسپاں نہیں ہوتا ، اس لئے اس منہاج پر اسلام کا مطالعہ کرنے والے اسلام کے حقیقی مفہوم کے تعین میں خطرناک غلطیاں کرتے ہیں ۔

اخر میں اس آیت میں ان تمام انتظامات کی حکمت عملی کی وضاحت کردی جاتی ہے کہ یہ تمام انتظامات اس لئے کئے جارہے ہیں کہ تم ظلم و زیادتی کے ارتکاب سے بچ سکو (آیت) ” ذلک ادنی الا تعولوا “۔ ” بےانصافی سے بچنے کیلئے یہ زیادہ قرین صواب ہے ۔ “ یعنی یہ کہ اگر تم انصاف نہیں کرسکتے تو ان یتیم بچیوں کو اپنے نکاح میں لینے سے باز رہو اور دوسری عورتوں سے نکاح کرلو ۔ دو دو ‘ تین تین ‘ اور چار چار ‘ اور اگر عدل ممکن نہ ہو تو فقط ایک پر اکتفا کرو۔ یا اپنی مملوکہ عورتوں پر اکتفاء کرو ۔ یہی صورت اس کے قریب ہے کہ تم بےانصافی سے بچو اور ظلم نہ کرسکو ۔

اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہر معاملے میں عدل و انصاف کی تلاش اسلامی نظام زندگی کا نصب العین ہے اور اسلام کی جزئیات میں سے ہر جزء میں عدل مطلوب ہے ۔ اور ایک خاندان جس کے اندر اس کے تمام افراد رہائش پذیر ہوتے ہیں ‘ اس کے اندر عدل و انصاف کا قیام دوسرے مقامات کے مقابلے میں زیادہ ضروری ہے ۔ اس لئے کہ کسی سوسائٹی کی تعمیر اور کسی اجتماعی نظام کی تشکیل میں خاندان خشیت اول کی حیثیت رکھتا ہے ۔ خاندان اجتماعی زندگی کا نقطہ آغاز ہے ۔ قوموں کی تربیت خاندان کے قالب میں ہوتی ہے ۔ یہاں انسانوں کی شخصیات کی تشکیل ہوتی ہے اور اسی میں رنگ بھرا جاتا ہے ۔ اگر خاندانی نظام کی بنیاد عدل و انصاف اور اخوت و محبت پر نہ ہو تو پھر پورے معاشرے میں عدل و انصاف قائم نہ ہو سکے گا ۔ (1) (دیکھئے میری کتاب ” السلام العالمی والاسلام “ کی فصل ” سلام البیت “۔ )

اسی مناسبت سے یہاں عورتوں کے بعض دوسرے حقوق بیان کر دئیے جاتے ہیں ۔ اس لئے کہ اس سورت کے آغاز میں ان کا ذکر خصوصیت سے ہوا تھا ‘ اس سورت کا نام بھی نساء رکھا گیا تھا ۔ اس لئے یتیم عورتوں کی بابت بات ختم کرنے سے پہلے بعض حقوق کا بیان مناسب تھا ۔