4:157 4:158 আয়াতের গ্রুপের জন্য একটি তাফসির পড়ছেন
وقولهم انا قتلنا المسيح عيسى ابن مريم رسول الله وما قتلوه وما صلبوه ولاكن شبه لهم وان الذين اختلفوا فيه لفي شك منه ما لهم به من علم الا اتباع الظن وما قتلوه يقينا ١٥٧ بل رفعه الله اليه وكان الله عزيزا حكيما ١٥٨
وَقَوْلِهِمْ إِنَّا قَتَلْنَا ٱلْمَسِيحَ عِيسَى ٱبْنَ مَرْيَمَ رَسُولَ ٱللَّهِ وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَـٰكِن شُبِّهَ لَهُمْ ۚ وَإِنَّ ٱلَّذِينَ ٱخْتَلَفُوا۟ فِيهِ لَفِى شَكٍّۢ مِّنْهُ ۚ مَا لَهُم بِهِۦ مِنْ عِلْمٍ إِلَّا ٱتِّبَاعَ ٱلظَّنِّ ۚ وَمَا قَتَلُوهُ يَقِينًۢا ١٥٧ بَل رَّفَعَهُ ٱللَّهُ إِلَيْهِ ۚ وَكَانَ ٱللَّهُ عَزِيزًا حَكِيمًۭا ١٥٨
وَّقَوْلِهِمْ
اِنَّا
قَتَلْنَا
الْمَسِیْحَ
عِیْسَی
ابْنَ
مَرْیَمَ
رَسُوْلَ
اللّٰهِ ۚ
وَمَا
قَتَلُوْهُ
وَمَا
صَلَبُوْهُ
وَلٰكِنْ
شُبِّهَ
لَهُمْ ؕ
وَاِنَّ
الَّذِیْنَ
اخْتَلَفُوْا
فِیْهِ
لَفِیْ
شَكٍّ
مِّنْهُ ؕ
مَا
لَهُمْ
بِهٖ
مِنْ
عِلْمٍ
اِلَّا
اتِّبَاعَ
الظَّنِّ ۚ
وَمَا
قَتَلُوْهُ
یَقِیْنًا
۟ۙ
بَلْ
رَّفَعَهُ
اللّٰهُ
اِلَیْهِ ؕ
وَكَانَ
اللّٰهُ
عَزِیْزًا
حَكِیْمًا
۟

(آیت) ” وقولھم انا قتلنا المسیح عیسیٰ ابن مریم رسول اللہ وما قتلوہ وما صلبوہ ولکن شبہ لھم ، وان الذین اختلفوا فیہ لفی شک منہ ، مالھم بہ من علم الا اتباع الظن ، وما قتلوہ یقینا “۔ (157) بل رفعہ اللہ الیہ ، وکان اللہ عزیزا حکیما (158) (4 : 157۔ 158) (حالانکہ فی الواقع انہوں نے نہ اس کو قتل کیا نہ صلیب پرچڑھایا بلکہ معاملہ ان کیلئے مشتبہ کردیا گیا اور جن لوگوں نے اس بارے میں اختلاف کیا ہے وہ بھی دراصل شک میں مبتلا ہیں ۔ ان کے پاس اس معاملے میں کوئی علم نہیں ہے ۔ محض گمان ہی کی پیروی ہے ۔ انہوں نے مسیح کو یقینا قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے اس کو اپنی طرف اٹھالیا ‘ اللہ زبردست طاقت رکھنے والا اور حکیم ہے) ۔۔۔۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے قتل کے معاملے میں اہل یہود سخت خبط میں پڑے ہوئے تھے اور خود عیسائیوں کو بھی اس بارے میں سخت غلط فہمی لاحق تھی ۔ یہودی یہ کہتے تھے ” ہم نے عیسیٰ ابن مریم رسول اللہ “ کو قتل کردیا ہے ۔ لفظ رسول اللہ وہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے لئے بطور مزاح استعمال کرتے تھے ۔ اور عیسائیوں کا کہنا یہ تھا “ انہیں سولی پر چڑھایا گیا اور دفن کردیا گیا لیکن تین دونوں کے بعد آپ دوبارہ اٹھ گئے ۔ “ اور ان کی تاریخ حضرت مسیح کی ولادت اور وفات سے اس طرح خاموش ہے کہ شاید اس واقعہ کی کوئی اہمیت ہی نہ تھی ۔ ان دونوں فریقوں نے اس عظیم واقعہ کے بارے میں وثوق کے ساتھ کوئی بات نہیں کہی تھی ۔ اس لئے کہ یہ واقعات بہت ہی تیزی سے وقوع پذیر ہوتے رہے اور نظروں سے اوجھل ہوتے رہے ۔ مختلف روایات پھیلتی رہیں اور سچ اور جھوٹ ایک دوسرے کے ساتھ گڈ مڈ ہوگئے ۔ کوئی بات یقین کے ساتھ کوئی نہ کہہ سکتا تھا ‘ نہ کسی نے کہی ‘ لہذا صرف وہی بات یقینی ہے جو اللہ رب العالمین نے فرمائی ۔

جن چار مروجہ اناجیل کے اندر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی گرفتاری کا قصہ بیان ہوا ہے ‘ آپ کی موت اور سولی پر چڑھانے کا جو قصہ اور پھر دفن کرنے اور پھر اٹھنے کا جو قصہ بیان ہوا ہے ‘ یہ تمام واقعات حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے اٹھائے جانے کے بہت ہی بعد کے ادوار میں لکھے گئے ہیں ۔ اس دور میں حضرت مسیح کے شاگردوں پر مظالم ہوتے رہے اور دین مسیح کو دبایا جاتا رہا ۔ اس خوف ‘ رازداری اور تشدد اور جلاوطنی کی فضا میں یہ بات نہایت ہی مشکل تھی کہ کوئی صحیح اور تحقیقی بات لکھی جاسکے ۔ اس دور میں بیشمار انجیلیں لکھی گئیں ۔ جبکہ 200 ء کے آخر میں جا کر ان میں سے ان مروجہ چار کو منتخب کیا گیا ۔ ان کو سرکاری اناجیل قرار دیا گیا۔ اور ان کو سرکاری اناجیل قرار دینے کے بھی بعض خاص مقاصد تھے اور شک وشبہ سے بالاتر نہ تھے ۔

حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بعد جو اناجیل تحریر ہوئیں ان میں سے ایک انجیل برناباس بھی تھی ۔ یہ انجیل ان چار منتخب اور تسلیم شدہ اناجیل سے مختلف تھی ، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے اٹھائے جانے کے واقعہ کے بارے میں یہ انجیل کہتی ہے ۔

” جب سپاہی یہوداہ کے ساتھ اس جگہ پہنچے ‘ جہاں یسوع تھا ‘ تو مسیح نے جم غفیر کو پاس آتے سنا اور وہ گھر کے ایک گوشے میں ڈر کر سمٹ گیا ‘ گیارہ شاگرد (بدستور) سو رہے تھے ‘ جب خدائے تعالیٰ نے دیکھا کہ اس کا بندہ (یسوع) خطرے میں ہے تو اس نے اپنے فرشتوں ‘ جبرئیل ‘ میخائیل ‘ رفائیل اور اور یل کو حکم دیا کہ وہ یسوع کو دنیا سے نکال لائیں ‘ پاکیزہ فرشتے آئے اور وہ یسوع کو اس کھڑکی سے ‘ جس کا رخ جنوب کی طرف تھا ‘ نکال کر اور اٹھا کرلے گئے اور اسے تیسرے آسمان میں ان فرشتوں کی صحبت میں لے جا کر رکھ دیا ‘ جو تا ابد اللہ کی تسبیح کرتے ہیں ‘ یہوداہ وقت کے ساتھ اسی کھڑی سے گھر میں داخل ہوا ‘ جس سے یسوع کو اٹھا لیا گیا تھا مسیح کے شاگرد سب کے سب (اب بھی) سو رہے تھے ‘ اب عجیب و غریب خدا نے ایک عجیب و غریب کام کیا اور وہ یہ کہ یہوداہ کی بولی اور اس کا چہرہ دونوں بدل گئے اور وہ یسوع کی طرح ہوگیا یہاں تک کہ ہمیں یقین ہوگیا کہ وہی یسوع ہے ۔ یہوداہ ہمیں جگانے کے بعد ڈھونڈنے لگا تاکہ معلوم کرے کہ ” استاد “ (یسوع) کہاں ہے ‘ ہمیں اس پر حیرت ہوئی اور ہم نے اس سے کہا : اے ہمارے آقا ! تو ہی تو ہمارا استاد ہے ‘ کیا تو نے ہمیں اس وقت بھلا دیا ہے ۔ ؛۔۔ ‘

غرض عیسائیوں کے پاس موجودہ ریکارڈ سے کوئی ایسا شخص جو اس معاملے میں تحقیق کرنا چاہے کوئی قابل یقین اور پختہ بات نہیں پاتا اس لئے کہ یہ واقعہ صبح صادق سے پہلے رات کی تاریکی میں پیش آیا تھا ۔ بعد میں آنے والے لوگوں نے جو دلائل پیش کئے وہ روایت در روایت پر مبنی تھے ۔ قرآن کریم اس بارے میں کہتا ہے ۔

(آیت) ” وان الذین اختلفوا فیہ لفی شک منہ ، مالھم بہ من علم الا اتباع الظن ، وما قتلوہ یقینا (157) بل رفعہ اللہ الیہ ، وکان اللہ عززا حکیما (158) (4 : 157۔ 158) (اور جن لوگوں نے اس بارے میں اختلاف کیا ہے وہ بھی دراصل شک میں مبتلا ہیں ۔ ان کے پاس اس معاملے میں کوئی علم نہیں ہے ۔ محض گمان ہی کی پیروی ہے ۔ انہوں نے مسیح کو یقینا قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے اس کو اپنی طرف اٹھالیا ‘ اللہ زبردست طاقت رکھنے والا اور حکیم ہے)

اور اس سے قبل قرآن کریم نے فیصلہ کن انداز میں فرمایا : (آیت) ” وما قتلوہ وما صلبوہ ولکن شبہ لھم “۔ (4 : 157) (حالانکہ انہوں نے نہ اس کو قتل کیا نہ صلیب پر چڑھایا بلکہ معاملہ ان کیلئے مشتبہ کردیا گیا۔ )

قرآن کریم یہاں رفع عیسیٰ (علیہ السلام) کی تفصیلات نہیں دیتا کہ آیا یہ رفع جسمانی تھا یا روحانی تھا ۔ بحالت حیات تھا ‘ یا فقط روحانی بعد الوفات تھا اور یہ کہ یہ تو فی کب واقعہ ہوئی اور کہاں ہوئی لیکن قرآن یہ کہتا ہے کہ انہوں نے نہ اسے قتل کیا اور نہ ہی اسے سولی پر چڑھایا ۔ یہ قتل اور سولی پر چڑھانے کا فعل اس شخص کے ساتھ ہوا جس کے بارے میں انہیں اشتباہ میں ڈالدیا گیا تھا کہ وہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ہیں ۔ اس کے سوا قرآن کریم یہاں مزید کچھ تفصیل نہیں بتاتا ۔ البتہ دوسری سورة ( سورة آل عمران) میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ۔ (آیت) ” (یاعیسی انی متوفیک ورافعک الی) (اے عیسیٰ میں تجھے واپس لے لوں گا اور تجھ کو اپنی طرف اٹھا لوں گا) اس آیت میں بھی اٹھائے جانے اور واپس لے لینے (وفات) کی تفصیلات نہیں دی گئیں نہ اس توفی کا وقت دیا گیا ہے اور نہ ہی ” توفی “ کی نوعیت بتائی گئی ہے ۔ ظلال القرآن میں ہم نے جو طریقہ اختیار کیا ہے ہم بھی اس میں قرآن کریم کے سائے میں رہتے ہوئے تفصیلات میں نہیں جاتے اس لئے کیفیت توفی پر ہمارے پاس کوئی دلیل نہیں ہے ۔ نہ اب تفصیلات کیلئے کوئی سبیل ہے ۔ محض اقاویل واساطیر نقل کرنے کا فائدہ ہی کیا ہوگا ۔

اب ہم واپس اصل موضوع کی طرف آتے ہیں اور قرآن کریم نے اہل کتاب پر جو استدراک کیا ہے اس کی طرف لوٹتے ہیں ۔