يا ايها الذين امنوا لا ترفعوا اصواتكم فوق صوت النبي ولا تجهروا له بالقول كجهر بعضكم لبعض ان تحبط اعمالكم وانتم لا تشعرون ٢
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ لَا تَرْفَعُوٓا۟ أَصْوَٰتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ ٱلنَّبِىِّ وَلَا تَجْهَرُوا۟ لَهُۥ بِٱلْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ أَن تَحْبَطَ أَعْمَـٰلُكُمْ وَأَنتُمْ لَا تَشْعُرُونَ ٢
یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ
اٰمَنُوْا
لَا
تَرْفَعُوْۤا
اَصْوَاتَكُمْ
فَوْقَ
صَوْتِ
النَّبِیِّ
وَلَا
تَجْهَرُوْا
لَهٗ
بِالْقَوْلِ
كَجَهْرِ
بَعْضِكُمْ
لِبَعْضٍ
اَنْ
تَحْبَطَ
اَعْمَالُكُمْ
وَاَنْتُمْ
لَا
تَشْعُرُوْنَ
۟

یایھا الذین امنوا ۔۔۔۔۔ وانتم لا تشعرون (49 : 2) “ اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، اپنی آوازنبی کی آواز سے بلند نہ کرو ، اور نہ نبی سے اونچی آواز سے بات کرو ، جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے سے کرتے ہو ، کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارے کیا کرایا سب غارت ہوجائے اور تمہیں خبر بھی نہ ہو ” ایمان لانے والوں سے خطاب کر کے اس بات کا اظہار کردیا کہ تمہارا وقار ایمان سے ہے اور ایمان تمہیں حضرت محمد ﷺ نے سکھایا ہے۔ نبی کی بارگاہ میں ذرا بھی بےاحتیاطی سے اعمال غارت ہوجائیں گے اور تمہارے اعمال اسی طرح اسی طرح بےاثر ہوجائیں جس طرح ہٹا کٹا جانور زہریلی گھاس سے آنافانا ختم ہوجاتا ہے تمہیں پتہ بھی ہوگا اور اعمال ضائع ہوچکے ہوں گے ۔

صحابہ کرام ؓ کے دلوں کے اندر اس محبوب اور پیاری آواز نے وہ اثر کرلیا تھا جس کی مثال نہیں ملتی۔ امام بخاری روایت کرتے ہیں : بشر ابن صفوان سے ، انہوں نے نافع ابن عمر سے انہوں نے ، ابن ابو ملیکہ سے وہ کہتے ہیں کہ قریب تھا کہ صحابہ میں سے دو برتر مقام کے لوگ ابوبکر اور عمر ہلاک ہوجائیں ۔ انہوں نے نبی ﷺ کے سامنے باہم تکرار کی جب بنو تمیم کا وفد آیا تھا ۔ یہ نویں ہجری کی بات ہے ایک نے کہا کہ اقرع ابن حابس کو امیر بنائیں یہ اشجع کے موالی میں سے تھا ، دوسرے صاحب نے ایک دوسرے شخص کے بارے میں کہا ، مجھے نام یاد نہیں ہے (دوسری روایت میں ، قعقاع ابن معبد آیا ہے) حضرت ابوبکر ؓ نے حضرت عمر ؓ سے کہا ، تم تو میرے خلاف ہی کرتے ہو ۔ حضرت عمر ؓ نے کہا میرا ارادہ آپ کی مخالفت کا نہ تھا۔ اس معاملے میں ان کی آوازیں بلند ہوگئیں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی ۔

یایھا الذین امنوا لاترفعوا ۔۔۔۔۔۔۔ وانتم لا تشعرون (49 : 2) “ اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، اپنی آواز نبی کی آواز سے بلند نہ کرو ، اور نہ نبی سے اونچی آواز سے بات کرو ، جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے سے کرتے ہو ، کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارا کیا کرایا سب غارت ہوجائے اور تمہیں خبر بھی نہ ہو ” ۔ ابن الزبیر ؓ کہتے کہ اس کے بعد حضرت عمر ؓ سے اس قدر آہستہ بات کرتے کہ آپ کو پوری طرح نہ سناتے اور حضور ﷺ ان سے دوبارہ پوچھتے۔ اور حضرت ابوبکر ؓ سے روایت ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو انہوں نے کہا اے رسول خدا میں آپ سے صرف کانا پھوسی میں بات کروں گا ۔

امام احمد روایت کرتے ہیں سلیمان ابن مغیرہ سے انہوں نے ثا بت سے انہوں نے حضرت انس ابن مالک سے وہ کہتے ہیں جب یہ آیت نازل ہوئی۔

یایھا الذین امنوا لاترفعوا ۔۔۔۔۔۔۔ وانتم لا تشعرون (49 : 2) “ اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، اپنی آواز نبی کی آواز سے بلند نہ کرو ، اور نہ نبی سے اونچی آواز سے بات کرو ، جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے سے کرتے ہو ، کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارا کیا کرایا سب غارت ہوجائے اور تمہیں خبر بھی نہ ہو ” ۔ تو ثابت ابن قیس بن الشماس نہایت اونچی آواز والے تھے وہ کہنے لگے “ میں ہی تھا جو رسول اللہ ﷺ پر اپنی آواز بلند کرتا تھا۔ میں ہی جہنمی ہوں اور میرے ہی اعمال گئے ” وہ گھر میں نہایت ہی مغموم ہو کر بیٹھ گئے۔ تو رسول اللہ ﷺ نے محسوس کیا یہ شخص نہیں آرہے ہیں۔ بعض لوگ ان کے پاس ہوگئے کہ آپ کی غیر حاضری کو رسول اللہ ﷺ نے محسوس کیا ہے۔ آپ کو کیا ہوگیا ہے ؟ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کی آواز سے تو میری آواز بلند ہوتی ہے اور میں ہی اونچی آواز سے باتیں کیا کرتا تھا۔ میرے تو اعمال ہی ضائع ہوگئے۔ لازماً میں جہنمی ہوں یہ لوگ حضور ﷺ کے پاس آئے۔ آپ ﷺ کو اطلاع دی کہ وہ تو یہ کہتے ہیں۔ تو حضور ﷺ نے فرمایا نہیں “ وہ تو اہل جنت میں سے ہیں ”۔ حضرت انس فرماتے ہیں وہ ہم میں پھرتے اور ہم یہ سمجھتے کہ یہ جا رہا ہے جنتی !

غرض “ اے لوگو ، جو ایمان لائے ہو ” کے محبت آمیز انداز گفتگو کے ساتھ مومنین کو جو کال دی گئی اس سے وہ کانپ اٹھے اور آئندہ کے لئے جناب رسالت میں نہایت خاموشی سے سہم کر بیٹھتے کہ کہیں ان کے اعمال ضائع نہ ہوجائیں۔ اور ان کو اس کا شعور ہی نہ ہو کیونکہ شعوری طور پر تو وہ بہت محتاط تھے لیکن ان کو زیادہ ڈر اس بات کا تھا کہ غیر شعوری حالت میں ان کا نقصان نہ ہوجائے اس لیے وہ بہت ڈر گئے تھے

یہاں اللہ تعالیٰ نے ان کی خدا خوفی اور رسول اللہ ﷺ کے ہاں ان کے ان آداب کا اظہار نہایت ہی عجیب پیرائے میں کیا ہے۔