۞ لقد رضي الله عن المومنين اذ يبايعونك تحت الشجرة فعلم ما في قلوبهم فانزل السكينة عليهم واثابهم فتحا قريبا ١٨
۞ لَّقَدْ رَضِىَ ٱللَّهُ عَنِ ٱلْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ ٱلشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِى قُلُوبِهِمْ فَأَنزَلَ ٱلسَّكِينَةَ عَلَيْهِمْ وَأَثَـٰبَهُمْ فَتْحًۭا قَرِيبًۭا ١٨
لَقَدْ
رَضِیَ
اللّٰهُ
عَنِ
الْمُؤْمِنِیْنَ
اِذْ
یُبَایِعُوْنَكَ
تَحْتَ
الشَّجَرَةِ
فَعَلِمَ
مَا
فِیْ
قُلُوْبِهِمْ
فَاَنْزَلَ
السَّكِیْنَةَ
عَلَیْهِمْ
وَاَثَابَهُمْ
فَتْحًا
قَرِیْبًا
۟ۙ

اب آئندہ آیات میں اسی مضمون کا تسلسل ہے جو پہلے رکوع میں { اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللّٰہَط } آیت 10 کے الفاظ سے شروع ہوا تھا۔ جیسا کہ قبل ازیں بھی ذکر ہوچکا ہے کہ حکمت الٰہی کے پیش نظر اس مضمون کا سلسلہ درمیان سے منقطع کرکے بعد میں نازل ہونے والی آیات کو وہاں جگہ دے دی گئی اور اب آیت 18 سے دوبارہ وہی مضمون شروع ہو رہا ہے۔آیت 18 { لَقَدْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ یُبَایِعُوْنَکَ تَحْتَ الشَّجَرَۃِ فَعَلِمَ مَا فِیْ قُلُوْبِہِمْ } ”اللہ راضی ہوگیا اہل ایمان سے جب کہ وہ آپ ﷺ سے بیعت کر رہے تھے ‘ درخت کے نیچے ‘ تو اللہ کے علم میں تھا جو کچھ ان کے دلوں میں تھا“ یعنی بیعت کے وقت تو ان کے دلوں میں فقط ذوق شہادت اور جوشِ جہاد تھا۔ صلح کی بات چیت تو ان کی بیعت کے بعد شروع ہوئی تھی۔ { فَاَنْزَلَ السَّکِیْنَۃَ عَلَیْہِمْ وَاَثَابَہُمْ فَتْحًا قَرِیْبًا } ”تو اللہ نے ان پر سکینت نازل کردی اور انہیں بدلے میں ایک قریبی فتح بخشی۔“ یہ اشارہ ہے فتح خیبر کی طرف جو حدیبیہ سے واپسی کے بعد جلد ہی ظہور میں آگئی۔ ان الفاظ میں اس امر کی صراحت ہے کہ یہ انعام ان ہی لوگوں کے لیے مخصوص تھا جو بیعت رضوان میں شریک تھے۔ چناچہ جب رسول اللہ ﷺ صفر 7 ھ میں خیبر پر چڑھائی کے لیے نکلے تو آپ ﷺ نے صرف انہی اصحاب کو ساتھ لیا۔