سيقول المخلفون اذا انطلقتم الى مغانم لتاخذوها ذرونا نتبعكم يريدون ان يبدلوا كلام الله قل لن تتبعونا كذالكم قال الله من قبل فسيقولون بل تحسدوننا بل كانوا لا يفقهون الا قليلا ١٥
سَيَقُولُ ٱلْمُخَلَّفُونَ إِذَا ٱنطَلَقْتُمْ إِلَىٰ مَغَانِمَ لِتَأْخُذُوهَا ذَرُونَا نَتَّبِعْكُمْ ۖ يُرِيدُونَ أَن يُبَدِّلُوا۟ كَلَـٰمَ ٱللَّهِ ۚ قُل لَّن تَتَّبِعُونَا كَذَٰلِكُمْ قَالَ ٱللَّهُ مِن قَبْلُ ۖ فَسَيَقُولُونَ بَلْ تَحْسُدُونَنَا ۚ بَلْ كَانُوا۟ لَا يَفْقَهُونَ إِلَّا قَلِيلًۭا ١٥
سَیَقُوْلُ
الْمُخَلَّفُوْنَ
اِذَا
انْطَلَقْتُمْ
اِلٰی
مَغَانِمَ
لِتَاْخُذُوْهَا
ذَرُوْنَا
نَتَّبِعْكُمْ ۚ
یُرِیْدُوْنَ
اَنْ
یُّبَدِّلُوْا
كَلٰمَ
اللّٰهِ ؕ
قُلْ
لَّنْ
تَتَّبِعُوْنَا
كَذٰلِكُمْ
قَالَ
اللّٰهُ
مِنْ
قَبْلُ ۚ
فَسَیَقُوْلُوْنَ
بَلْ
تَحْسُدُوْنَنَا ؕ
بَلْ
كَانُوْا
لَا
یَفْقَهُوْنَ
اِلَّا
قَلِیْلًا
۟

صلح حدیبیہ سے پہلے یہود مسلمانوں کی دشمنی میں بہت جری تھے۔ کیوں کہ اس سے پہلے انہیں اس معاملہ میں قریش کا پورا تعاون حاصل تھا۔ حدیبیہ میں قریش سے نا جنگ معاہدہ نے یہود کو قریش سے کاٹ دیا۔ اس کے بعد وہ اکیلے رہ گئے۔ اس سے خیبر، تیما، فدک وغیرہ کے یہودیوں کے حوصلے ٹوٹ گئے۔ چنانچہ صلح کے تین مہینے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر پر چڑھائی کی تو وہاں کے یہود نے لڑے بھڑے بغیر ہتھیار ڈال دیے اور ان کے کثیر اموال مسلمانوں کو غنیمت میں ملے۔

کمزور ایمان کے لوگ جو حدیبیہ کے سفر کو پر خطر سمجھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نہیں گئے تھے، اب انہوں نے چاہا کے وہ یہودیوں کے خلاف کارروائی میں شریک ہوں اور مال غنیمت میں اپنا حصہ حاصل کریں۔ مگر ان کو ساتھ جانے سے روک دیا گیا۔ خدا کا قانون یہ ہے کہ جو خطرہ مول لے وہ نفع حاصل کرے۔ آدمی جب خطرہ مول لیے بغیر حاصل کرنا چاہے تو گویا وہ قانون الٰہی کو بدل دینا چاہتا ہے۔ مگر اس دنیا میں خدا کے قانون کو بدلنا کسی کے لیے ممکن نہیں۔