طاعة وقول معروف فاذا عزم الامر فلو صدقوا الله لكان خيرا لهم ٢١
طَاعَةٌۭ وَقَوْلٌۭ مَّعْرُوفٌۭ ۚ فَإِذَا عَزَمَ ٱلْأَمْرُ فَلَوْ صَدَقُوا۟ ٱللَّهَ لَكَانَ خَيْرًۭا لَّهُمْ ٢١
طَاعَةٌ
وَّقَوْلٌ
مَّعْرُوْفٌ ۫
فَاِذَا
عَزَمَ
الْاَمْرُ ۫
فَلَوْ
صَدَقُوا
اللّٰهَ
لَكَانَ
خَیْرًا
لَّهُمْ
۟ۚ

آیت 21 { طَاعَۃٌ وَّقَوْلٌ مَّعْرُوْفٌ} ”اطاعت لازم ہے اور کوئی بھلی بات کہی جاسکتی ہے۔“ ان کے لیے پسندیدہ روش اطاعت اور قول معروف کی تھی۔ یہ لوگ جب ایمان کے دعوے دار ہیں تو ان پر اللہ کے رسول ﷺ کی اطاعت لازم ہے۔ ایمان کے دعوے کے ساتھ ساتھ یہ لوگ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکام کے خلاف دلیل بازی نہیں کرسکتے۔ ہاں اگر کسی معاملے میں یہ لوگ معروف طریقے سے کوئی مفید مشورہ دینا چاہتے تو اس میں کوئی حرج نہیں تھا۔ { فَاِذَا عَزَمَ الْاَمْرُقف فَلَوْ صَدَقُوا اللّٰہَ لَکَانَ خَیْرًا لَّہُمْ } ”تو جب کوئی فیصلہ طے پا جائے تو پھر اگر وہ اللہ سے اپنے ایمان کے وعدے میں سچے ثابت ہوں ‘ تبھی ان کے لیے بہتری ہے۔“