اِنَّ
الَّذِیْنَ
قَالُوْا
رَبُّنَا
اللّٰهُ
ثُمَّ
اسْتَقَامُوْا
فَلَا
خَوْفٌ
عَلَیْهِمْ
وَلَا
هُمْ
یَحْزَنُوْنَ
۟ۚ

آیت 13 { اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا } ”بیشک جن لوگوں نے اقرار کیا کہ ہمارا رب اللہ ہے پھر اس پر جم گئے“ نوٹ کیجیے یہ وہی الفاظ ہیں جو اس سے پہلے ہم سورة حٰمٓ السجدۃ کی آیت 30 میں پڑھ آئے ہیں۔ وہاں بھی میں نے عرض کیا تھا اور اب پھر دہرا رہا ہوں کہ اس ”استقامت“ کو صرف ایک لفظ مت سمجھئے ‘ غور کریں گے تو آپ کو محسوس ہوگا کہ اس ”استقامت“ میں ایک ”قیامت“ مضمر ہے۔ اللہ تعالیٰ کو اپنا رب مان کر ہر حال میں اس کی رضا پر راضی رہنا ‘ اس کی رضا کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لینا ‘ اسی پر توکل ّکرنا ‘ اس کے احکامات کی پابندی کرنا اور اس کی طرف سے عائد کردہ جملہ ذمہ داریوں کو نبھانے میں اپنا تن من دھن دائو پر لگا دینا وغیرہ سب اس استقامت میں شامل ہے۔ سورة حٰمٓ السجدۃ آیت 30 کے مطالعہ کے دوران ہم حضرت سفیان بن عبداللہ رض کی حدیث پڑھ چکے ہیں کہ انہوں نے حضور ﷺ سے درخواست کی تھی کہ مجھے اسلام کے بارے میں کوئی ایک بات ایسی بتادیجیے جسے میں پلے ّباندھ لوں اور میرے لیے وہ کافی ہوجائے۔ اس کے جواب میں حضور ﷺ نے فرمایا : قُلْ آمَنْتُ بِاللّٰہِ ثُمَّ اسْتَقِمْ ”کہو کہ میں ایمان لایا اللہ پر ‘ پھر اس پر جم جائو !“ بہر حال اللہ پر ایمان لانے کے بعد استقامت یہی ہے کہ انسان کا دل اس سوچ پر جم جائے کہ اللہ ہی میرا پروردگار ہے اور وہی حاجت روا ‘ وہی مشکل کشا ہے اور وہی میری دعائوں کا سننے والا ہے ‘ اور پھر انسان خود کو اللہ کے لیے وقف کر دے۔ ایک بندہ مومن کی اسی کیفیت کا نقشہ سورة الانعام کی اس آیت میں دکھایا گیا ہے : { قُلْ اِنَّ صَلاَتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ } ”آپ ﷺ کہیے : میری نماز ‘ میری قربانی ‘ میری زندگی اور میری موت اللہ ہی کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔“ { فَلَا خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلَا ہُمْ یَحْزَنُوْنَ } ”تو ان پر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ حزن سے دوچار ہوں گے۔“ ملاحظہ کیجیے سورة یونس کی آیت 62 میں ”اولیاء اللہ“ کے مخصوص مقام و مرتبہ کے حوالے سے بھی بالکل یہی الفاظ آئے ہیں : { اَلَآ اِنَّ اَوْلِیَآئَ اللّٰہِ لاَخَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلاَ ہُمْ یَحْزَنُوْنَ۔ ”آگاہ ہو جائو ! اللہ کے دوستوں پر نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے“۔ گویا جو لوگ ایمان لائے اور پھر ایمان پر مستقیم ہوگئے وہ اولیاء اللہ ہیں اور آخرت میں انہیں کسی قسم کے خوف اور حزن و ملال کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔