نحن اولياوكم في الحياة الدنيا وفي الاخرة ولكم فيها ما تشتهي انفسكم ولكم فيها ما تدعون ٣١
نَحْنُ أَوْلِيَآؤُكُمْ فِى ٱلْحَيَوٰةِ ٱلدُّنْيَا وَفِى ٱلْـَٔاخِرَةِ ۖ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِىٓ أَنفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَدَّعُونَ ٣١
نَحْنُ
اَوْلِیٰٓؤُكُمْ
فِی
الْحَیٰوةِ
الدُّنْیَا
وَفِی
الْاٰخِرَةِ ۚ
وَلَكُمْ
فِیْهَا
مَا
تَشْتَهِیْۤ
اَنْفُسُكُمْ
وَلَكُمْ
فِیْهَا
مَا
تَدَّعُوْنَ
۟ؕ

آیت 31 { نَحْنُ اَوْلِیٰٓؤُکُمْ فِی الْْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَۃِج } ”ہم ہیں تمہارے رفیق دنیوی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی۔“ ان الفاظ سے یہ مفہوم خود بخود واضح ہو رہا ہے کہ فرشتے حیات دنیوی کے دوران بھی ان خوش قسمت لوگوں کی ہمت بندھاتے ہیں اور انہیں یہ پیغامِ جانفرا پہنچاتے ہیں۔ { وَلَکُمْ فِیْہَا مَا تَشْتَہِیْٓ اَنْفُسُکُمْ } ”اور تمہارے لیے اس جنت میں وہ سب کچھ ہوگا جو تمہارے جی چاہیں گے“ تمہارے جی وہاں جو کچھ چاہیں گے وہ سب کچھ ہمارے علم میں ہے ‘ کیونکہ تمہارے نفسوں کے تقاضوں اور تمہاری خواہشات کو بھی ہم نے خود ہی پیدا کیا ہے۔ لہٰذا ہم تمہاری خواہشات کی تسکین کا مکمل سامان وہاں فراہم کریں گے۔ { وَلَکُمْ فِیْہَا مَا تَدَّعُوْنَ } ”اور تمہارے لیے اس میں وہ سب کچھ بھی ہوگا جو تم مانگو گے۔“ تمہارے نفسوں کے تقاضوں کے مطابق تو سب کچھ وہاں پہلے سے ہی مہیا ہوچکا ہوگا۔ البتہ مانگنے اور طلب کرنے کے حوالے سے ہر شخص کا اپنی ذہنی سطح کے مطابق ایک معیار اور مخصوص ذوق ہوتا ہے۔ بچہ اپنی پسند کی کوئی چیز مانگے گا ‘ ایک سادہ لوح دیہاتی اپنے معیار کی کوئی چیز طلب کرے گا ‘ جبکہ ایک حکیم و فلسفی اپنے ذوق کے مطابق سوال کرے گا۔ غرض جو کوئی جو کچھ مانگے گا وہ سب کچھ اس کے سامنے حاضر کردیا جائے گا۔