ونجيناه واهله من الكرب العظيم ٧٦
وَنَجَّيْنَـٰهُ وَأَهْلَهُۥ مِنَ ٱلْكَرْبِ ٱلْعَظِيمِ ٧٦
وَنَجَّیْنٰهُ
وَاَهْلَهٗ
مِنَ
الْكَرْبِ
الْعَظِیْمِ
۟ؗۖ

آیت 76{ وَنَجَّیْنٰہُ وَاَہْلَہٗ مِنَ الْکَرْبِ الْعَظِیْمِ } ”اور ہم نے نجات دی اس کو اور اس کے گھر والوں کو کرب عظیم سے۔“ یہ ”کربِ عظیم“ کیا تھا ؟ اس کو سمجھنے کے لیے حضرت نوح کی قوم اور معاشرے کے حالات کی تصویر ذہن میں لائیے۔ چشم تصور سے دیکھئے کہ کس طرح اللہ کا ایک بندہ لوگوں تک اللہ کا پیغام پہنچا رہا ہے۔ اس کے لیے وہ دن دیکھتا ہے نہ رات۔ اجتماعی دعوت بھی دے رہا ہے ‘ انفرادی ملاقاتیں بھی کر رہا ہے ‘ ہر موقع آزما رہا ہے ‘ ہر ذریعہ اور ہر طریقہ بروئے کار لا رہا ہے ‘ جبکہ جواب میں اس کی اپنی قوم کے لوگ مسلسل اس سے استہزاء کر رہے ہیں ‘ اس کا تمسخر اڑا رہے ہیں اور اس پر پھبتیاں کس رہے ہیں۔ اس جان لیوا جدوجہد میں دس بیس یا پچاس برس تک نہیں ‘ پورے ساڑھے نو سو سال تک اپنی جان کو گھلاتے چلے جانا اور اس کے جواب میں قوم کے مخالفانہ رویے کا سامنا کرنا اور پھر اس مخالفت پر صبر کرنا کوئی معمولی کرب اور ضیق نہیں تھا۔ اسی طرح کے کرب اور ضیق کا سامنا محمد رسول اللہ ﷺ کو مکی دور میں اس وقت کرنا پڑا تھا جب مشرکین بار بار کسی معجزے کا مطالبہ کر کے آپ ﷺ پر گویا اتمامِ حجت کر رہے تھے۔ ان کا اصرار تھا کہ اگر آپ اللہ کے رسول ہیں تو ہمیں ایسے معجزات دکھائیں جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام ٰ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام ٰ نے اپنی قوموں کو دکھائے تھے۔ اس حوالے سے آپ ﷺ پر عوام کا دبائو مسلسل بڑھتا جا رہا تھا ‘ جبکہ اللہ کا فیصلہ اس حوالے سے یہ تھا کہ اس طرح کا کوئی حسی ّمعجزہ نہیں دکھایا جائے گا۔ اس صورت حال میں آپ ﷺ گویا چکی ّکے دو پاٹوں کے درمیان آ چکے تھے۔ سورة الانعام کے مطالعے کے دوران حضور ﷺ کے اس کرب عظیم کی کیفیت کے بارے میں ہم پڑھ چکے ہیں۔ سورة الانعام کی متعلقہ آیات اس موضوع پر گویا ذروہ سنام climax کا درجہ رکھتی ہیں۔ چناچہ آیت زیر مطالعہ میں اہل ایمان کو گویا اشارۃً بتایا جا رہا ہے کہ تم لوگوں کو تو ابھی راہ حق میں سختیاں جھیلتے ہوئے صرف دس بارہ سال ہی ہوئے ہیں۔ اپنی تکلیفوں کے بارے میں سوچتے ہوئے ذرا ہمارے بندے نوح علیہ السلام کے صبر و استقامت کو بھی مد ِنظر رکھو جو ساڑھے نو سو سال تک اس طرح کے ”کرب“ کا سامنا کرتے رہے۔ اس میں اس امر کی طرف بھی اشارہ ہے کہ جس طرح نوح اور ان کے اہل ایمان ساتھیوں کو اس کرب عظیم سے بچایا گیا ‘ اسی طرح آخر کار محمد رسول اللہ ﷺ اور ان کے ساتھیوں کو بھی ہم اس کرب عظیم سے نجات دلائیں گے جس میں اہل ِمکہ ّنے ان کو مبتلا کر رکھا ہے۔ پھر پانی کا عذاب بذات خود ایک ”کربِ عظیم“ تھا جو حضرت نوح کی قوم پر مسلط ہوا تھا۔ یعنی یوں تو نہیں ہوا ہوگا کہ سیلاب آیا اور حق کے مخالفین سب کے سب آنِ واحد میں غرق ہوگئے۔ آج بھی اگر ہم اس خوفناک صورت حال کی تصویر اپنے ذہنوں میں لا کر غور کریں تو ہم اندازہ کرسکتے ہیں کہ اس سیلابِ بلا کی انتہائی غیر معمولی صورت حال کو دیکھ کر وہ لوگ تشویش و تفکر ّکے کون کون سے مراحل سے گزرے ہوں گے ‘ کیسی کیسی حفاظتی تدابیر لڑائی گئی ہوں گی ‘ جانیں بچانے کے لیے کیا کیا بھگڈر اور ہلچل مچی ہوگی۔ گویا سیلاب کی وجہ سے اس قوم کے لیے قیامت صغریٰ کا منظر ہوگا۔ اور کسی نہ کسی درجے میں { اِنَّ زَلْزَلَۃَ السَّاعَۃِ شَیْئٌ عَظِیْمٌ} الح ج کی سی کیفیت پیدا ہوگئی ہوگی۔ یہ سب کچھ بذات خود ایک ”کربِ عظیم“ تھا ‘ جس کا سامنا حضرت نوح علیہ السلام اور آپ علیہ السلام کے ساتھیوں کو بھی تھا ‘ لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل خاص سے انہیں اس ”کربِ عظیم“ سے محفوظ رکھا۔