فَقَالُوْا
رَبَّنَا
بٰعِدْ
بَیْنَ
اَسْفَارِنَا
وَظَلَمُوْۤا
اَنْفُسَهُمْ
فَجَعَلْنٰهُمْ
اَحَادِیْثَ
وَمَزَّقْنٰهُمْ
كُلَّ
مُمَزَّقٍ ؕ
اِنَّ
فِیْ
ذٰلِكَ
لَاٰیٰتٍ
لِّكُلِّ
صَبَّارٍ
شَكُوْرٍ
۟

فقالوا ربنا بعد ۔۔۔۔۔ لکل صبار شکور (19) “۔ انہوں نے خود مطالبہ کیا کہ اے اللہ ہمیں طویل المسافت سفر دے۔ ایسا سفر جو سالوں میں کیا جاسکے کیونکہ ان تھوڑے تھوڑے مختصر سفروں سے ہم تنگ آگئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ انکے دماغ اور انکے نفوس فساد پذیر ہوگئے تھے

وظلموا انفسھم (34: 19) ” “۔ انہوں نے یہ دعا کرکے اپنے اوپر ظلم کیا۔ اللہ نے بھی ان کی دعا قبول کرلی۔ یہ دعا دراصل سرکشی کی دعا تھی اور اللہ نے اسے بطور سزا قبول کرلیا۔

فجعلنھم احادیث ومزقنھم کل ممزق (34: 19) ”

“۔ وہ خود خواہش کے مطابق اس ملک سے نکال دئیے گئے ، تتر بتر ہوگئے اور پورے جزیرۃ العرب میں پھیل گئے۔ ان کی تاریخ افسانہ بن گئی۔ صرف قصے رہ گئے قوم اور ملک ناپید ہوگیا۔ حالانکہ وہ ملک اور امت کے مالک تھے اور بہترین زندگی بسر کرتے تھے۔

ان فی ذلک لایت لکل صبار شکور (34: 19) ” “۔ شکر کے ساتھ یہاں صبر کا ذکر بھی کیا گیا ہے کیونکہ مشکلات میں صبر بڑا ہتھیار ہوتا ہے۔ نعمتوں میں شکر انسان کے لیے بہت ہی مفید رویہ ہوتا ہے اور قصہ قوم سبا میں دونوں کے لیے سبق ہے۔

یہ تو تھا آیت کا ایک مفہوم لیکن ایک دوسرا مفہوم بھی ہوسکتا ہے۔ اس آیت کا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ۔

وجعلنا بینھم ۔۔۔۔۔ قری ظاھرۃ (34: 18) ” اور ہم نے ان بستیوں اور برکت والی بستیوں کے درمیان ایسی بستیاں پیدا کردیں جو قوت اور شوکت والی تھیں “۔ یعنی ان ہلاکت شدہ بستیوں اور مبارک بستیوں کے درمیان غالب بستیاں وجود میں آگئیں۔ جبکہ سبا کے لوگ فقراء بن گئے اور خشک صحراوی زندگی کی طرف لوٹ گئے۔ ان کو چراگاہوں اور پانیوں کی طرف رات دن سفر کرنا پڑتا۔ انہوں نے ان آزمائشوں پر صبر نہ کیا۔ اور یہ دعا کی سے رب باعد۔

بین اسفارنا (34: 19) ” ہمارے سفروں کو دور کر دے “۔ یعنی ہماری حالت پادندگی کو ختم کر دے۔ ہم تنگ آگئے۔ یہ دعا انہوں نے انابت اور اصلاح حال کے ساتھ نہ کی تھی اور وہ پوری طرح تائب نہ ہوئے تھے۔ اس لیے دعا قبول نہ ہوئی۔ انہوں نے خوشحالی کی وجہ سے سرکشی اختیار کی تھی اور مشکلات پر صبر نہ کیا تو اللہ نے ان کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے رکھ دیا۔ یوں یہ لوگ افسانہ بن گئے جس کا کوئی مصداق روئے زمین پر نہ رہا۔

ان فی ذلک لایت لکل صبار شکور (34: 19) ” بیشک اس میں نشانیاں ہیں ہر اس شخص کے لیے جو صابر اور شاکر ہو “۔ چونکہ انہوں نے شکر نہ کیا تھا اور مشکلات میں صبر نہ کیا تھا۔ اس آیت کی یہ بھی ایک تفسیر ہے جو ذہن میں آتی ہے۔ اب آخر میں بات قصے کے محدود احاطے سے نکل کر اللہ کی عمومی تدبیر کے دائرے میں آتی ہے۔ اللہ کا نظام قضا وقدر جو نہایت ہی محکم ہے ، جو عام اور جو بطور سنت الہیہ اس کائنات میں جاری وساری ہے۔ قصے کا سبق یوں نچوڑا جاتا ہے۔