ليجزي الله الصادقين بصدقهم ويعذب المنافقين ان شاء او يتوب عليهم ان الله كان غفورا رحيما ٢٤
لِّيَجْزِىَ ٱللَّهُ ٱلصَّـٰدِقِينَ بِصِدْقِهِمْ وَيُعَذِّبَ ٱلْمُنَـٰفِقِينَ إِن شَآءَ أَوْ يَتُوبَ عَلَيْهِمْ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ كَانَ غَفُورًۭا رَّحِيمًۭا ٢٤
لِّیَجْزِیَ
اللّٰهُ
الصّٰدِقِیْنَ
بِصِدْقِهِمْ
وَیُعَذِّبَ
الْمُنٰفِقِیْنَ
اِنْ
شَآءَ
اَوْ
یَتُوْبَ
عَلَیْهِمْ ؕ
اِنَّ
اللّٰهَ
كَانَ
غَفُوْرًا
رَّحِیْمًا
۟ۚ

لیجزی اللہ الصدقین ۔۔۔۔۔۔ کان غفورا رحیما (22) “۔

قرآن کریم میں واقعات و حادثات پر ایسا تبصرہ آتا رہتا ہے۔ مقصد یہ بتانا ہوتا ہے کہ تمام معاملات اللہ کے اختیار میں ہیں۔ ان واقعات کی حکمت بھی بتا دی جاتی ہے کہ کوئی واقعہ عبث یا یونہی پیش نہیں آجاتا۔ ہر واقعہ حکمت الہیہ کا حصہ ہوتا ہے اور مقررہ وقت پر آتا ہے۔ اس کے پیچھے بامقصد تدبیر ہوتی ہے اور اس کے مقررہ نتائج نکلتے ہیں۔ اللہ کے بندوں کے لئے رحمت اور

فضل اس میں عیاں ہوتا ہے اور یہ جان لینا چاہئے کہ اللہ کی رحمت اور اس کا فضل ہمیشہ عیاں ہوتا ہے۔

ان اللہ کان غفورا رحیما (33: 24) ” بیشک اللہ غفور و رحیم ہے “۔ اور یہ عظیم واقعہ اس پر ختم ہوتا ہے کہ مومنین کا اپنے رب کے بارے میں جو یقین تھا وہ درست ثابت ہوا اور منافقین اور افواہیں پھیلانے والے غلط خیالات لیے ہوئے تھے۔ غرض ایمانی اقدار آخر کار کامیاب رہیں۔