واذ قال لقمان لابنه وهو يعظه يا بني لا تشرك بالله ان الشرك لظلم عظيم ١٣
وَإِذْ قَالَ لُقْمَـٰنُ لِٱبْنِهِۦ وَهُوَ يَعِظُهُۥ يَـٰبُنَىَّ لَا تُشْرِكْ بِٱللَّهِ ۖ إِنَّ ٱلشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌۭ ١٣
وَاِذْ
قَالَ
لُقْمٰنُ
لِابْنِهٖ
وَهُوَ
یَعِظُهٗ
یٰبُنَیَّ
لَا
تُشْرِكْ
بِاللّٰهِ ؔؕ
اِنَّ
الشِّرْكَ
لَظُلْمٌ
عَظِیْمٌ
۟

آیت 13 وَاِذْ قَالَ لُقْمٰنُ لابْنِہٖ وَہُوَ یَعِظُہٗ ”یہاں سے ان نصیحتوں کا آغاز ہوتا ہے جن میں حضرت لقمان اپنے بیٹے سے مخاطب ہیں۔ اگرچہ یہاں پر اس کا ذکر نہیں کیا گیا ‘ لیکن انہوں نے یہ نصیحتیں اپنے انتقال کے وقت کی تھیں۔ ہر شخص فطری طور پر چاہتا ہے کہ وہ اپنی موت سے پہلے اپنی اولاد کو اپنے ورثے کے بارے میں ضروری ہدایات دے جائے۔ جیسے عام طور پر بڑے بڑے کارخانہ دار اور دولت مند لوگ اپنے کاروبار ‘ اثاثہ جات اور اور لین دین کے معاملات سے متعلق وصیت کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ چناچہ حضرت لقمان جیسے حکیم انسان نے بھی ضروری سمجھا کہ اپنے عمر بھر کے غوروفکر اور دانائی کا نچوڑاورُ لبّ لباب موت سے پہلے اپنے بیٹے کو منتقل کردیں۔یٰبُنَیَّ لَا تُشْرِکْ باللّٰہِط اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ ”لغوی اعتبار سے لفظ ”ظلم“ کا مفہوم ناانصافی اور حق تلفی ہے۔ ”ظلم“ کی تعریف یوں کی جاتی ہے : وَضْعُ الشَّیْئ فِیْ غَیْرِ مَحَلِّہٖیعنی کسی چیز کو اس کے اصل مقام سے ہٹا کر کسی دوسری جگہ پر رکھ دینا۔ ظلم کی اس تعریف definition پر غور کریں تو یہ نکتہ بڑی آسانی سے سمجھ میں آجاتا ہے کہ یہاں شرک کو ”ظلم عظیم“ کیوں کہا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سب کا خالق ہے اور کائنات کی ہرچیز اس کی مخلوق ہے۔ وہ اپنی صفات میں یکتا اور تنہا ہے۔ اب اگر کوئی انسان ان صفات کے اعتبار سے مخلوق میں سے کسی کو اٹھا کر اللہ کے برابر کر دے یا اللہ تعالیٰ کو کسی اعتبار سے گرا کر مخلوق کی صف میں لا کھڑا کرے تو اس سے بڑھ کر ظلم اور کیا ہوگا ؟حضرت لقمان کی اس اہم نصیحت کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہاں اپنی طرف سے ایک نصیحت کا اضافہ کیا ہے جو والدین کے حقوق سے متعلق ہے۔ ممکن ہے کہ حضرت لقمان نے کسر نفسی کے باعث خود اپنے حق سے متعلق بیٹے کو نصیحت کرنا مناسب نہ سمجھا ہو ‘ چناچہ اس کمی کو اللہ تعالیٰ نے پورا فرما دیا۔ اس لحاظ سے قرآن حکیم میں یہ پانچواں مقام ہے جہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے حق توحید کے فوراً بعد والدین کے حقوق کا بیان فرمایا ہے۔ اس سے پہلے البقرۃ : 83 ‘ النساء : 36 ‘ الانعام : 151 ‘ اور بنی اسرائیل : 23 میں اللہ تعالیٰ کے حق کے بعد والدین کے حقوق کا ذکر ہوا ہے۔