جس نظام سے آدمی کے فائدے وابستہ ہوجائیں وہ سمجھنے لگتاہے کہ مجھ کو جو کچھ مل رہا ہے وہ اسی نظام کی بدولت مل رہا ہے۔ آدمی صرف حال کے فائدوں کو جانتا ہے، وہ مستقبل کے فائدوں کو نہیں جانتا۔
یہی معاملہ قدیم مکہ کے مشرکوں کا تھا۔ انھوں نے کعبہ میں تمام عرب قبیلوں کے بت رکھ دئے تھے۔ اس طرح انھیں پورے ملک کی مذہبی سرداری حاصل ہوگئی تھی۔ اسی طرح ان بتوں کے نام پر جو نذرانے آتے تھے وہ بھی ان کی معاش کا خاص ذریعہ تھے۔
مگر یہ صرف ان کی تنگ نظری تھی۔ خدا کا رسول انھیں ایک ایسے دین کی طر ف بلا رہا تھا جو انھیں عالم کی امامت دینے والا تھا، اور وہ ایک ایسے دین کی خاطر اس کو چھوڑ رہے تھے جس کے پاس ملک کے قبیلوں کی معمولی سرداری کے سوا اور کچھ نہ تھا۔
০%