ماننے کی دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ حق ہے، اس ليے ماننا ۔دوسري یہ کہ اپنے گروہ کا ہے اس ليے ماننا۔ ان دونوں میں صرف پہلی قسم کے انسان ہیں جن کو ہدایت کی توفیق ملتی ہے۔ اور اسی قسم کے لوگ تھے جو دور اوّل میں قرآن اور پیغمبر پر ایمان لائے۔
عیسائیوں اور یہودیوں میں ایک تعداد تھی جو قرآن کو سنتے ہی اس کی مومن بن گئی۔ یہ وہ لوگ تھے جو سابق پیغمبروں کی حقیقی تعلیمات پر قائم تھے۔ اس ليے ان کو پیغمبر آخر الزماں کو پہچاننے میں دیر نہیں لگی۔ انھوں نے نئے پیغمبر کو بھی اسی طرح پہچان لیا جس طرح انھوں نے پچھلے پیغمبروں کو پہچانا تھا۔ مگر اپنے آپ کو اس قابل رکھنے کے ليے انھیں ’’صبر‘‘ کے مرحلوں سے گزرنا پڑا۔
انھوںنے اپنے ذہن کو ان اثرات سے پاک رکھا جس کے بعد آدمی حق کی معرفت کے ليے نااہل ہوجاتا ہے۔ یہ وہ تاریخی اور سماجی عوامل ہیں جو آدمی کے ذہن میں خدائی دین کو گروہی دین بنا دیتے ہیں۔ آدمی کا یہ حال ہوجاتا ہے کہ وہ صرف اس دین کو پہچان سکے جو اس کے اپنے گروہ سے ملا ہو۔ وہ اس دین کو پہچاننے میں ناکام رہے جو اس کے اپنے گروہ کے باہر سے اس کے پاس آئے۔ ان اثرات سے محفوظ رہنے کے ليے آدمی کو زبردست نفسیاتی قربانی دینی پڑتی ہے۔ اس ليے اس کو صبر سے تعبیر فرمایا۔ ایسے لوگوں کو دہرا اجر دیا جائے گا۔ ایک ان کی اس قربانی کا کہ انھوںنے اپنے سابقہ ایمان کو گروہی ایمان بننے نہیں دیا۔ اور دوسرے ان کی جوہر شناسی کا کہ ان کے سامنے نیا پیغمبر آیا تو انھوں نے اس کو پہچان لیا اور اس کے ساتھ ہوگئے۔
جن لوگوں کے اندر حق شناسی کا مادہ ہو انھیں کے اندر اعلیٰ اخلاقی اوصاف پرورش پاتے ہیں۔ لوگ ان کے ساتھ برائی کریں تب بھی وہ لوگوں کے ساتھ بھلائی کرتے ہیں۔ وہ دوسروں کی مدد کرتے ہیں تاکہ خدا ان کی مدد کرے۔ ان کا طریقہ اعراض کا طریقہ ہوتاہے، نہ کہ لوگوں سے الجھنے کا طریقہ۔
০%