مستكبرين به سامرا تهجرون ٦٧
مُسْتَكْبِرِينَ بِهِۦ سَـٰمِرًۭا تَهْجُرُونَ ٦٧
مُسْتَكْبِرِیْنَ ۖۗ
بِهٖ
سٰمِرًا
تَهْجُرُوْنَ
۟

آیت 67 مُسْتَکْبِرِیْنَق بِہٖ سٰمِرًا تَہْجُرُوْنَ ”اس زمانے میں عربوں کے ہاں قصہ گوئی کا بہت رواج تھا۔ پیشہ ور قصہ گو راتوں کو مجمع جما کر قصے سنایا کرتے تھے۔ یہ عام لوگوں کے لیے تفریح کا ذریعہ تھا اور قصہ گو کے لیے کمائی کا وسیلہ۔ اسی طرح کے قصہ گو ہندوستان میں راجپوتوں کے ہاں بھی پائے جاتے تھے جو ان کے لیے راتوں کو محفلیں سجاتے تھے۔ چناچہ اس پس منظر میں مشرکین مکہ کو مخاطب کر کے کہا جا رہا ہے کہ کیا تم لوگوں نے ہمارے رسول ﷺ کو بھی قصہ گو سمجھ رکھا ہے کہ آپ ﷺ کی بات سننا یا نہ سننا تمہارے لیے برابر ہے ؟ اور تم سمجھتے ہو کہ آپ ﷺ کی بات ماننے یا نہ ماننے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا ؟ تم لوگوں کو معلوم ہوجانا چاہیے کہ یہ فیصلہ کن کلام ہے : وَبِالْحَقِّ اَنْزَلْنٰہُ وَبِالْحَقِّ نَزَلَط وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ الاَّ مُبَشِّرًا وَّنَذِیْرًا بنی اسرائیل ”اور اس قرآن کو ہم نے حق کے ساتھ نازل کیا ہے اور یہ حق کے ساتھ ہی نازل ہوا ہے ‘ اور اے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہیں بھیجا ہم نے آپ کو مگر بشارت دینے والا اور خبردار کرنے والا“۔ آئندہ اسی کلام کے ترازو میں قوموں کی قسمتیں تولی جائیں گی ‘ اسی کے سہارے لوگ کامیاب و کامران ہوں گے اور اس کو چھوڑ کر ناکامیوں اور محرومیوں کے گڑھوں میں گریں گے۔ اس سلسلے میں نبی مکرم ﷺ کا یہ فرمان بہت واضح اور دوٹوک ہے : اِنَّ اللّٰہَ یَرْفَعُ بِھٰذَا الْکِتَابِ اَقْوَامًا وَیَضَعُ بِہٖ آخَرِیْنَ 1 ”اللہ اسی کتاب کی بدولت قوموں کو اٹھائے گا اور اس کو چھوڑنے کے باعث قوموں کو گرائے گا۔“