22:77 22:78 আয়াতের গ্রুপের জন্য একটি তাফসির পড়ছেন
يا ايها الذين امنوا اركعوا واسجدوا واعبدوا ربكم وافعلوا الخير لعلكم تفلحون ۩ ٧٧ وجاهدوا في الله حق جهاده هو اجتباكم وما جعل عليكم في الدين من حرج ملة ابيكم ابراهيم هو سماكم المسلمين من قبل وفي هاذا ليكون الرسول شهيدا عليكم وتكونوا شهداء على الناس فاقيموا الصلاة واتوا الزكاة واعتصموا بالله هو مولاكم فنعم المولى ونعم النصير ٧٨
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ ٱرْكَعُوا۟ وَٱسْجُدُوا۟ وَٱعْبُدُوا۟ رَبَّكُمْ وَٱفْعَلُوا۟ ٱلْخَيْرَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ۩ ٧٧ وَجَـٰهِدُوا۟ فِى ٱللَّهِ حَقَّ جِهَادِهِۦ ۚ هُوَ ٱجْتَبَىٰكُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِى ٱلدِّينِ مِنْ حَرَجٍۢ ۚ مِّلَّةَ أَبِيكُمْ إِبْرَٰهِيمَ ۚ هُوَ سَمَّىٰكُمُ ٱلْمُسْلِمِينَ مِن قَبْلُ وَفِى هَـٰذَا لِيَكُونَ ٱلرَّسُولُ شَهِيدًا عَلَيْكُمْ وَتَكُونُوا۟ شُهَدَآءَ عَلَى ٱلنَّاسِ ۚ فَأَقِيمُوا۟ ٱلصَّلَوٰةَ وَءَاتُوا۟ ٱلزَّكَوٰةَ وَٱعْتَصِمُوا۟ بِٱللَّهِ هُوَ مَوْلَىٰكُمْ ۖ فَنِعْمَ ٱلْمَوْلَىٰ وَنِعْمَ ٱلنَّصِيرُ ٧٨
یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ
اٰمَنُوا
ارْكَعُوْا
وَاسْجُدُوْا
وَاعْبُدُوْا
رَبَّكُمْ
وَافْعَلُوا
الْخَیْرَ
لَعَلَّكُمْ
تُفْلِحُوْنَ
۟
وَجَاهِدُوْا
فِی
اللّٰهِ
حَقَّ
جِهَادِهٖ ؕ
هُوَ
اجْتَبٰىكُمْ
وَمَا
جَعَلَ
عَلَیْكُمْ
فِی
الدِّیْنِ
مِنْ
حَرَجٍ ؕ
مِلَّةَ
اَبِیْكُمْ
اِبْرٰهِیْمَ ؕ
هُوَ
سَمّٰىكُمُ
الْمُسْلِمِیْنَ ۙ۬
مِنْ
قَبْلُ
وَفِیْ
هٰذَا
لِیَكُوْنَ
الرَّسُوْلُ
شَهِیْدًا
عَلَیْكُمْ
وَتَكُوْنُوْا
شُهَدَآءَ
عَلَی
النَّاسِ ۖۚ
فَاَقِیْمُوا
الصَّلٰوةَ
وَاٰتُوا
الزَّكٰوةَ
وَاعْتَصِمُوْا
بِاللّٰهِ ؕ
هُوَ
مَوْلٰىكُمْ ۚ
فَنِعْمَ
الْمَوْلٰی
وَنِعْمَ
النَّصِیْرُ
۟۠

یایھا الذین ……النصیر (47)

ان دو آیات میں ایک پورا منہاج امت مسلمہ کے سامنے رکھ دیا گیا ہے۔ وہ فرئاض اور تقاضے بھی رکھ دیئے جو اس منہاج اور نظام کے ساتھ لازمی شرط کے طور پر لگے ہوئے ہیں۔ اس کی اہمیت کیا ہے ؟ اور ماضی اور حال میں اس کی جڑیں کہاں تک پھیلتی ہیں ، جب اس منہاج اور نظام کو اللہ کی خاہش کے مطابق قائم کردیا گیا ، یہ منہاج کیا ہے ؟

٭ اہل ایمان کو سب سے پہلے رکوع و سجود کا حکم دیا جاتا ہے۔ رکوع و سجود اسلام کے ممتاز بنیادی ارکان ہیں۔ قرآن کریم نماز کی تعبیر اکثر رکوع و سجود سے کرتا ہے کیونکہ یہ نماز کے اہم اجزاء اور نماز کا منظر پیش کرتے وقت ظاہری افعال ہیں جن کا تعلق منظر کشی سے ہے۔ کیونکہ قرآن کریم کا اسلوب اظہار مناظر کی شکل میں ہے جو ایک دلنشین انداز ہے۔ شعور پر اس کا زیادہ اثر ہوتا ہے۔

٭ممتاز ترین عبادت کے ممتاز ترین ارکان کے بعد ایک عام حکم جو پوری زندگی کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ بندگی جو نماز سے زیادہ جامع ہے۔ کیونکہ عبادت میں فرئاض بھی شامل ہیں اور ہر وہ عمل بھی شامل ہے جس کے بارے میں اللہ کا کوئی حکم ہے اور اللہ کی رضامندی کے لئے اس کی تعمل ہو۔ اسی طرح انسانی زنگدی کی تمام حرکات کو عبادت میں تبدیل کیا جاسکتا ہے اگر یہ حرکات اللہ کی رضامندی کی نیت سے کی جائیں یہاں تک کہ زندگی کے وہ امور جن کا تعلق لذت سے ہے وہ بھی عبادت بن سکتے ہیں اگر ان پر اللہ کا ذکر کیا جائے ، اللہ کا شکر ادا کیا جائے اور یہ نیت کی جائے کہ یہ نعمتیں استعمال کر کے ہم مزید عبادت اور جہاد کریں گے۔ محض نیت سے ہر چیز عبادت بن سکتی ہے اور محض نیت سے خالص عبادت کھیل بن سکتی ہے۔

٭یہ کہ اسلام خیر ہی خیر ہے ، تمام اچھائی کے کام اسلامی نظام زندگی ہے۔ نماز ، بندگی اور خیر خلاصہ ہے اسلامی نظام کا۔

اب اس اسلام کو عملی دنیا میں نافذ کرنا ہے اور اس میں تم کامیاب اس طرح ہو سکتے ہو کہ خیر کے کام کرو۔ اللہ کی بندگی اور عبادت سے تمہارا تعلق باللہ مضبوط ہوگا اور اچھے کام کرنے سے تمہاری عملی زندگی درست ہوگی۔ اس سے تمہاری اجتماعی زندگی کا رخ ایمان کی راہ پر پڑجائے گا۔ جب امت کی تربیت یوں ہوگئی کہ اس کا تعلق باللہ عبادت کے ذریعہ پختہ ہوگیا۔ اس کی عملی زندگی اللہ کی اطاعت اور عمل خیر کے ذریعے استوار ہوگئی تو تب امت یا امت میں سے کوئی جماعت اس ذمہ داری کے سرانجام دینے کیلئے تیار ہوگی جو اسلامی نظام کے قیام کا واحد طریقہ ہے اور وہ کیا ہے ؟

وجاھدوا فی اللہ حق جھادہ (22 : 88) ” اللہ کی راہ میں جہاد کرو جیسا کہ جہاد کرنے کا حق ہے۔ “ یہ نہایت ہی جامع تعبیر ہے ، جہاد کا حق ادا کرو ، اس سے یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ یہ ذمہ داری بہت ہی بڑی ہے۔ اس کے لئے بہت بڑی تیاری کی ضرورت ہے اور اس کے بہت بڑے تقاضے ہیں۔ اللہ کے راستے میں جہاد کرو جس طرح جہاد کرنے کا حق ہے ، اللہ کے دشمنوں سے جہاد کرو خود اپنے نفس کے ساتھ جہاد کرو ، شر و فساد اور ہر برائی کے خلاف جہاد کرو۔ اللہ کی راہ میں جہاد کا حق ادا کرو ، تمہیں تو تیار ہی جہاد کے لئے اس عظیم ڈیوٹی کے لئے کیا گیا ہے۔ تمام انسانوں میں سے تمہارا انتخاب ہوا ہے۔

ھو اجتبکم (22 : 88) ” اس نے تمہیں چنا ہے “ پھر اللہ نے جو تمہیں چن لیا ہے تو تمہاری ذمہ داری دوسروں کے مقابلے میں بڑھ گئی ہے۔ اب استعفی اور فرار کی تو کوئی راہ باقی نہیں رہی۔ یہ تو اس امت اور جماعت کے لئے اللہ کی طرف سے اکرام ہے اور چاہئے کہ ہم اللہ کا شکر ادا کریں اور اس کام کو اچھی طرح انجام دیں۔

پھر اللہ کی رحمت بھی اس کے ساتھ شامل ہے۔ کام بھی آسان ہے۔

وما جعل علیکم فی الدین من حرج (22 : 88) ” دین میں تم پر کوئی تنگئی نہیں رکھی گئی۔ “ یہ دین اور اس کے فرائض اس کی عبادات ، اس کے قوانین اور اس کے اخلاق میں انسانی فطرت کو مدنظر رکھا گیا ہے اور انسان کی فطری قوتوں کو تعمیری کاموں میں لگایا گیا ہے۔ ان کو اس طرح بند نہیں کیا گیا جس طرح گیس کو بند کیا جاتا ہے اور نہ ان قوتوں کو حیوانات کی طرح آزاند چھوڑا گیا ہے۔ پھر یہ دین ایک ایسا منہاج ہے کہ اس کی جڑیں ماضی کی تاریخ میں بیھ دور تک موجود ہیں۔

ملۃ ابیکم ابرھیم (22 : 88) ” قائم ہو جائو اپنے باپ ابراہیم کی ملت پر۔ “

یہ دین تو توحید کا سرچشمہ ہے اور اس کا سرا حضرت ابراہیم سے ملتا ہے۔ لہٰذا ایسا نہیں ہے کہ اس کی جڑیں زمین پر نہ ہوں اور اس کی تاریخ کے اندر بھی کوئی بڑا خلا (GAP) نہیں ہے جس طرح حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے پہلے کی رسالتوں میں تھا اور نام بھی اس کا تاریخی ہے کہ حضرت ابراہیم نے تمہیں مسلمان کا نام دیا ہے اور اس ملت کا نا ملت اسلامیہ رکھا ہے۔

اسلام کا مفہوم ہی یہ ہے کہ چہرے ، نیت اور اعمال سب کو خدا کی طرف موڑ دو ۔ لہٰذا امت مسلمہ کا روزل اول سے ایک ہی نظریہ ، ایک ہی عقیدہ اور ایک ہی قبلہ ہے۔ حضرت ابراہیم سے لے کر حضرت محمد ﷺ تک ایک ہی سلسلہ ، ایک ہی نظام اور ایک ہی پیغام ہے۔ حضرت محمد ﷺ کو سب سے آخر میں یہ امانت دی گئی اور حکم دیا گیا کہ یہ پیغام تمام انسانیت تک پہنچانا ہے۔

لیکون الرسول شھیدا علیکم و تکونوا شھدآء علی الناس (22 : 88) ” تاکہ رسول تم پر گواہ ہو اور تم لوگوں پر گواہ ہو۔ “ تو رسول امت پر گواہ ہے یعنی وہ اس کے لئے نظام وضع کرے گا ، صحیح و غلط اور نیک و بد کی تمیز سکھائے گا ، اور یہی فریضہ یہ امت دوسرے لوگوں کے حوالے سے ادا کرے گی۔ یہ امت گویا پوری انسانیت کی نگراں ہے۔ اس امت کی شرعی قدریں اس کا تقاضا کرتی ہیں کہ اس کی تربیت اور اس کی سوچ بھی اس لائن پر ہے۔ یہ امت ، امت مسلمہ نہ ہوگی اگر وہ تمام انسانیت کی نگرانی نہ کرے اور اپنا اصلی فریضہ نہ ادا کرے۔

امت مسلمہ نے جب تک اسلامی نظام زندگی کو اپنے ہاں اپنی زندگی وں میں نافذ کئے رکھا ، وہ پوری دنیا کی نگران رہی۔ جب اس امت نے شریعت کے نظام سے انحرامف کیا اور اپنے فرئاض ادا کرنے ترک کردیئے تو اللہ تعالیٰ نے اسے مقام قیادت سے ہٹا کر دوسروں کا دم چھلا بنا دیا اور اب وہ ہمیشہ ایسے ہی رہے گی جب تک وہ اسلامی نظام کی حامل نہیں ہوتی۔

یہ فریضہ وہ تب تک ادا نہیں کرسکتی جب تک اس کے لئے تیاری نہ کرے اور تیاری کا نسخہ لالہ بتاتے ہیں۔ یہ کہ نماز پڑھو ، یہ کہ زکوۃ دو اور یہ کہ اللہ پر مکمل بھروسہ کرو۔

فاقیموا الصلوۃ ……النصیر (22 : 88) ” پس نماز قائم کرو ، زکوۃ دو اور اللہ سے وابستہ ہو جائو۔ وہ ہے تمہارا مولیٰ بہت ہی اچھا ہے وہ مولیٰ اور بہت ہی اچھا ہے وہ مددگار۔ “

٭نماز ایک فانی اور کمزور انسان کا رابطہ اس ذات کے ساتھ استوار کرتی ہے جو قوی ہے اور مقتدر قوت ہے۔

٭ زکوۃ امت مسلمہ اور جماعت مسلمہ کے افراد کے درمیان صلہ رحمی کا قیام ہے۔ حاجات اور ضروریات میں افراد جماعت کی کفالت کا انتظام ہے تاکہ فساد پیدا نہ ہو۔

٭ اور اللہ پر بھروسہ وہ مضبوط رسی ہے جس کو کبھی ہاتھ نہ چھوڑنا چاہئے۔

یہ ہیں وہ سامان جنگ جن کے ذریعہ یہ امت وہ فریض شہادت علی الناس ادا کرسکتی ہے۔ جس کے لئے اسے اٹھایا گیا تھا اور ان اخلاقی اسلحہ کے علاوہ امت کے لئے عمومی ہدایت ہے کہ وہ حد استقامت تک روایتی زمینی اسلحہ بھی جمع کرسکتی ہے۔ قرآن اس سے غافل نہیں رہا ہے۔ لیکن یہاں اللہ تعالیٰ اس قوت ، اس فوجی تربیت اور اس ساز و سامان کے جمع کرنے پر زور دیتا ہے جو امت مسلمہ کا واحد اسلحہ ہے اور کسی اور کے پاس نہیں ہے۔ یعنی اللہ کے ساتھ رابطہ ، صلاح اور اصلاح اور نظر بلند اور سر بلندی۔

اسلامی نظام کے پیش نظر اصل مقصد یہ ہے کہ انسانیت کو اس کمال تک پہنچایا جائے جو اس زمین میں حاصل کرنا ممکن ہو۔ اسلام یہاں محض جانوروں کی طرح حیوانی ترقی پر زور نہیں دیتا بلکہ روحانی ترقی پر بھی زور دیتا ہے۔

انسانیت کی بلند اقدار انسان کی مادی ضروریات کو بھی پیش نظر رکھتی ہیں لیکن وہ اپنی سرگرمیوں کو صرف مادی ضروریات تک محدود نہیں رکھتیں اور یہی اسلام کا مطالبہ ہے امت مسلمہ سے کہ دنیا کی قیادت اسلام کے جامع نظام کی روشنی میں کی جائے۔ صدق اللہ العظیم