ان آیات کا خطاب اگر چہ بظاہر پیغمبر سے ہے مگر اس کے مخاطب تمام اہلِ ایمان ہیں۔ دنیا میں ایک شخص ایمان اور دعوت کی زندگی اختیار کرتاہے۔ اس کے نتیجے میں اس کی زندگی مشقتوں کی زندگی بن جاتی ہے۔ دوسری طرف یہ حال ہے کہ جو لوگ اس قسم کی ذمہ داریوں سے آزاد ہیں وہ آرام اور راحت میں اپنے صبح وشام گزاررہے ہیں۔ اس صورت حال کو نمایاں کرکے شیطان آدمی کے دل میں وسوسہ ڈالتا ہے۔ وہ مومن اور داعی کو متزلزل کرنے کی کوشش کرتاہے۔
لیکن گہرائی سے دیکھا جائے تو اس ظاہری فرق کے آگے ایک اور فرق ہے اور وہ فرق زیادہ قابل لحاظ ہے۔وہ فرق یہ کہ دنیا پرست لوگوں کو جو چیز ملی ہے وہ محض امتحان کے لیے ہے اور سراسر وقتی ہے۔ اس کے بعد ابدی زندگی میں ان کے لیے کچھ نہیں۔ دوسری طرف مومن اور داعی کو خدا سے وابستگی اختیار کرنے کے نتیجہ میں جو چیز ملی ہے وہ تمام دنیا کی چیزوں سے زیادہ قیمتی ہے۔ وہ ہے — اللہ کی یاد، آخرت کی فکر، عبادت اور تقویٰ کی زندگی، خدا کے بندوں کو آخرت کی پکڑ سے بچانے کے لیے فکر مند ہونا۔ یہ بھی رزق ہے۔ اور یہ زیادہ اعلیٰ رزق ہے کیوں کہ وہ آخرت میںایسی بے حساب نعمتوں کی شکل میں آدمی کی طرف لوٹے گا جوکبھی ختم ہونے والی نہیں۔
০%