13:27 13:32 আয়াতের গ্রুপের জন্য একটি তাফসির পড়ছেন
وَیَقُوْلُ
الَّذِیْنَ
كَفَرُوْا
لَوْلَاۤ
اُنْزِلَ
عَلَیْهِ
اٰیَةٌ
مِّنْ
رَّبِّهٖ ؕ
قُلْ
اِنَّ
اللّٰهَ
یُضِلُّ
مَنْ
یَّشَآءُ
وَیَهْدِیْۤ
اِلَیْهِ
مَنْ
اَنَابَ
۟ۖۚ
اَلَّذِیْنَ
اٰمَنُوْا
وَتَطْمَىِٕنُّ
قُلُوْبُهُمْ
بِذِكْرِ
اللّٰهِ ؕ
اَلَا
بِذِكْرِ
اللّٰهِ
تَطْمَىِٕنُّ
الْقُلُوْبُ
۟ؕ
اَلَّذِیْنَ
اٰمَنُوْا
وَعَمِلُوا
الصّٰلِحٰتِ
طُوْبٰی
لَهُمْ
وَحُسْنُ
مَاٰبٍ
۟
كَذٰلِكَ
اَرْسَلْنٰكَ
فِیْۤ
اُمَّةٍ
قَدْ
خَلَتْ
مِنْ
قَبْلِهَاۤ
اُمَمٌ
لِّتَتْلُوَاۡ
عَلَیْهِمُ
الَّذِیْۤ
اَوْحَیْنَاۤ
اِلَیْكَ
وَهُمْ
یَكْفُرُوْنَ
بِالرَّحْمٰنِ ؕ
قُلْ
هُوَ
رَبِّیْ
لَاۤ
اِلٰهَ
اِلَّا
هُوَ ۚ
عَلَیْهِ
تَوَكَّلْتُ
وَاِلَیْهِ
مَتَابِ
۟
وَلَوْ
اَنَّ
قُرْاٰنًا
سُیِّرَتْ
بِهِ
الْجِبَالُ
اَوْ
قُطِّعَتْ
بِهِ
الْاَرْضُ
اَوْ
كُلِّمَ
بِهِ
الْمَوْتٰی ؕ
بَلْ
لِّلّٰهِ
الْاَمْرُ
جَمِیْعًا ؕ
اَفَلَمْ
یَایْـَٔسِ
الَّذِیْنَ
اٰمَنُوْۤا
اَنْ
لَّوْ
یَشَآءُ
اللّٰهُ
لَهَدَی
النَّاسَ
جَمِیْعًا ؕ
وَلَا
یَزَالُ
الَّذِیْنَ
كَفَرُوْا
تُصِیْبُهُمْ
بِمَا
صَنَعُوْا
قَارِعَةٌ
اَوْ
تَحُلُّ
قَرِیْبًا
مِّنْ
دَارِهِمْ
حَتّٰی
یَاْتِیَ
وَعْدُ
اللّٰهِ ؕ
اِنَّ
اللّٰهَ
لَا
یُخْلِفُ
الْمِیْعَادَ
۟۠
وَلَقَدِ
اسْتُهْزِئَ
بِرُسُلٍ
مِّنْ
قَبْلِكَ
فَاَمْلَیْتُ
لِلَّذِیْنَ
كَفَرُوْا
ثُمَّ
اَخَذْتُهُمْ ۫
فَكَیْفَ
كَانَ
عِقَابِ
۟

آیت نمبر 27 تا 32

ان لوگوں کی تردید کا خلاصہ یہ ہے کہ دلوں کے اندر ایمان پیدا ہونے کا حقیقی سبب وقوع معجزات نہیں ہے۔ ایمان کے داعی اور اسباب خود کسی انسان کے نفس کے اندر موجود ہوتے ہیں اور انسان خود اپنی نفسیاتی کیفیات اور داخلی فطری دواعی کی وجہ سے ایمان لاتا ہے۔

قل ان اللہ۔۔۔۔۔ اناب (13 : 27) ” کہو اللہ جسے چاہتا ہے ، گمراہ کردیتا ہے اور وہ اپنی طرف آنے کا راستہ اسی کو دکھاتا ہے جو اس کی طرف رجوع کرے “۔

لہٰذا اللہ صرف ان لوگوں کو ہدایت دیتا ہے جو اس کی طرف میلان رکھتے ہوں اور ان کا یہ میلان اور انابت الی اللہ کا جذبہ ہی ہے جس نے ان کو اہل ایمان بنایا۔ اس کا دوسرا مفہوم یہ ہوا کہ جو لوگ اللہ کی طرف میلان اور انابت نہیں رکھتے وہی گمراہ ہوتے ہیں ، لہٰذا اللہ بھی ان کو گمراہ کردیتا ہے۔ لہٰذا دلوں کے اندر ہدایت کی استعداد اور پھر طلب ہدایت اور اس راہ میں سعی کرنے سے ہدایت ملتی ہے۔ لیکن جو دل اللہ کی ہدایت کی استعداد ہی سے محروم ہوتے ہیں اور جو اس سمت میں حرکت ہی نہیں کرتے وہ اللہ سے اور ہدایت سے دور ہوجاتے ہیں۔

اس کے بعد مومن دلوں کی ایک نہایت ہی شفاف تصویر کشی کی جاتی ہے۔ یہ تصویر کشی نہایت ہی اطمینان وقرار ، انس و محبت اور مسرت اور بشاشت کے رنگوں میں رنگی ہوئی ہے۔

الذین امنوا وتطمئن قلوبھم بذکر اللہ (13 : 28) ” وہ جنہوں نے نبی کی دعوت کو مان لیا ان کے دلوں کو اللہ کی یاد سے اطمینان نصیب ہوتا ہے “۔ ان کو یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ اپنے رب سے متعلق ہیں۔ وہ اللہ کے جوار رحمت میں ہیں اور اللہ کے ہاں مامون اور محفوظ ہیں۔ وہ تنہائی کی مشکلات سے بھی مطمئن ہوتے ہیں ، راہ حق کی پریشانیوں میں بھی مطمئن ہوتے ہیں۔ اور وہ تخلیق کائنات ، اس کے آغاز اور انجام کے بارے میں بھی شفاف سوچ رکھتے ہیں اس لیے مطمئن ہوتے ہیں ، وہ ہر ظلم ، ہر شر اور ہر زیادتی سے اپنے آپ کو اللہ کی پناہ میں سمجھتے ہیں اس لیے مطمئن ہوتے ہیں الایہ کہ اللہ کی مشیت سے کوئی مصیبت آجائے تو وہ اس پر بھی راضی ہوتے ہیں اور اسے ابتلا سمجھ کر اس پر صبر کرتے ہیں۔ ہدایت ، رزق ، دنیا و آخرت کی پردہ پوشی کے بارے میں بھی ان کو اللہ پر پورا بھروسہ ہوتا ہے اس لیے وہ مطمئن ہوتے ہیں۔

الا بذکر اللہ تطمئن القلوب (13 : 28) ” بیشک اللہ کی یاد ہی وہ چیز ہے جس سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوا کرتا ہے “۔ اہل ایمان کے دلوں میں اللہ کے ذکر سے جو اطمینان پیدا ہوتا ہے اس کا صحیح علم صرف ان لوگوں کو ہوتا ہے جن کے دلوں میں ایمان کی بشاشت اور مٹھاس پیدا ہوجائے اور ان کو اللہ کا فضل حاصل ہوجاتا ہے ۔ ایسے لوگ اس ایمانی بشاشت اور طمانیت کو محسوس کرتے ہیں لیکن اس کی کیفیات ایسی ہوتی ہیں جن کو الفاظ کے ذریعہ دوسرے لوگوں تک منتقل نہیں کیا جاسکتا۔ خصوصاً ایسے لوگوں تک جن کو یہ معرفت حاصل نہ ہو کیونکہ یہ حقائق الفاظ کی گرفت سے باہر ہوتے ہیں۔ یہ اطمینان دلوں میں سرایت کرتا ہے۔ ان کو سکون اور فرحت دیتا ہے ، ہمت دیتا ہے۔ وہ امن و سلامتی کا شعور پاتے ہیں۔ ایسے اہل معرفت محسوس کرتے ہیں کہ وہ تنہا نہیں ہیں ، ان کو ایک پورا ماحول اپنا دوست اور یار نظر آتا ہے ۔ کیونکہ ان کے اردگرد اللہ کی صنعت کاریاں ہوتی ہیں جبکہ خود صاحب معرفت اللہ ہی کی حمایت میں ہوتا ہے۔

ان لوگوں سے بڑا بد بخت اس روئے زمین پر کوئی نہیں ہے جو تعلق باللہ کی وجہ سے اور ذکر الٰہی کی وجہ سے پیدا ہونے والے انس و محبت سے بیخبر ہوں۔ اس سے بڑا بد بخت کوئی نہیں ہے کہ وہ اس کرۂ ارض کے اوپر چلے پھرے اور اسے اپنے کائناتی ماحول سے کوئی انس و محبت نہ ہو۔ اس سے بڑا کوئی بدبخت نہ ہوگا جو اس دنیا میں چلے پھرے اور اسے معلوم نہ ہو کہ اس کا مقصد وجود کیا ہے ؟ وہ کیوں آیا ہے اور کدھر جا رہا ہے ؟ اور اس کے اوپر زندگی کا یہ بوجھ کیوں ڈالا گیا ہے ؟ اور اس سے بدبخت اور کون ہوگا جو اس کرۂ ارض پر چلتا پھرتا ہو اور وہ اپنے ماحول کی ہر چیز سے اس لیے بدکتا ہو۔ اسے معلوم ہو کہ اس کے اور ہر چیز کے درمیان ایک نہایت ہی لطیف تعلق ہے ؟ اس سے بدبخت اور کون ہوگا جو سفر حیات طے کر رہا ہے لیکن اکیلا ہے ، راندہ ہے ، گم کردہ راہ ہے اور پہاڑوں اور صحراؤں میں اکیلا پھر رہا ہے اور زندگی کا یہ کٹھن سفر وہ اکیلا بغیر گائیڈ کے ، بغیر انیس سفر کے اور بغیر ہادی و مددگار کے طے کر رہا ہے۔ اور اسے نشان منزل تک معلوم نہیں۔

یاد رکھو ! زندگی کے اس کٹھن سفر میں بعض لمحات ایسے بھی آتے ہیں ، نہایت ہی تاریک گھڑیاں جن کا مقابلہ صرف وہ شخص کرسکتا ہے جو اللہ کا ہوگیا ہو ، جسے اللہ کی حمایت کا بھروسہ ہو ، ورنہ خواہ کوئی کس قدر طاقتور ، بہادر اور مستقل مزاج کیوں نہ ہو زندگی میں بعض ایسی تاریک گھڑیاں آتی ہیں کہ انسان کی تمام قوتیں جواب دے جاتی ہیں۔ آخری سہارا صرف تعلق باللہ کی قوت اور ذکر الٰہی سے حاصل ہوتا ہے۔

الا بذکر اللہ تطمئن القلوب (13 : 28) ” خبردار ! ذکر الٰہی سے دلوں کو اطمینان حاصل ہوتا ہے “۔ یہ لوگ جو اللہ کی طرف جھکنے والے ہیں اور اللہ کے ذکر کی وجہ سے مطمئن ہیں ، اللہ کے ہاں ان کا انجام بہت ہی اچھا ہوگا کیونکہ انہوں نے اچھا طرز عمل اختیار کیا اور وہ اللہ کے مطیع فرمان رہے۔

الذین امنوا۔۔۔۔۔۔ ماب (13 : 29) ” جن لوگوں نے دعوت حق کو قبول کیا اور نیک عمل کئے وہ خوش نصیب ہیں اور ان کے لئے اچھا انجام ہے۔ طوبیٰ طاب یطیب سے ہے بوزن کبریٰ ۔ یہ صیغہ تفخیم اور تعظیم کے لئے آتا ہے یعنی ان کے لئے بہت بڑی خوشخبری ہے۔ ان کا اچھا انجام اس خدا کے ہاں ہوگا جس کے وہ اپنی زندگی میں مطیع فرمان رہے۔

وہ لوگ جو معجزات طلب کرتے ہیں ، ایسے لوگوں کو ایمان اطمینان کا شعور حاصل نہیں ہوتا۔ وہ ذہنی خلجان میں مبتلا ہوتے ہیں اور اپنی اس ذہنی پریشانی کو دور کرنے کے لئے معجزات کا مطالبہ کرتے ہیں اور اے پیغمبر آپ کسی قوم میں آنے والے پہلے رسول نہیں ہیں کہ ان لوگوں کے لئے یہ معاملہ ناقابل فہم ہوگیا ہے۔ اس سے قبل بھی کئی اقوام گزری ہیں اور کئی رسول گزرے ہیں۔ اگر یہ لوگ کفر پر تل گئے ہیں تو آپ اپنے منہاج پر کام کرتے رہیں اور اللہ پر بھروسہ کریں۔

کذلک ارسلنک ۔۔۔۔۔۔ والیہ متاب (13 : 30) ” اے نبی اسی شان سے ہم نے تم رسول بنا کر بھیجا۔ ایک ایسی قوم میں جس سے پہلے بہت سی قومیں گذر چکی ہیں تا کہ تم ان لوگوں کو وہ پیغام سناؤ جو ہم نے تم پر نازل کیا ہے۔ اس حال میں کہ یہ اپنے نہایت ہی مہربان خدا کے کافر بنے ہوئے ہیں۔ ان سے کہو کہ وہی میرا رب ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے ، اسی پر میں نے بھروسہ کیا اور وہی میرا طجا وماویٰ ہے “۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ یہ لوگ رحمٰن کا کفر کرتے ہیں جس کی رحمت بہت ہی بڑی ہے۔ جس کے ذکر سے دل مطمئن ہوجاتے ہیں اور اس کی عظیم رحمت کا شعور ان میں پیدا ہوجاتا ہے۔ اے پیغمبر آپ کی ڈیوٹی تو صرف یہ ہے کہ جو وحی آپ کی طرف آتی ہے آپ ان لوگوں کو پڑھ کر سنا دیں۔ آپ کے بھیجنے کا مقصد ہی یہ ہے ۔ اگر وہ کفر کے ارتکاب پر تل گئے ہیں تو اعلان کردیں کہ میرا بھروسہ تو صرف اللہ وحدہ پر ہے اور یہ کہ میں اسی کی طرف لوٹنے والا ہوں اور کسی اور کی طرف پناہ لینے کے لئے مجھے رجوع نہیں کرنا ہے۔

ہم نے آپ کو صرف یہ ڈیوٹی دی ہے کہ آپ قرآن کی دعوت لوگوں تک پہنچا دیں۔ یہ قرآن پڑھیں ، بذاب خود یہ کتاب اور یہ کلام بہت ہی عجائب اپنے اندر رکھتا ہے۔ اگر کسی قرآن کے ذریعہ پہاڑ چلائے جاتے ، یا زمین کے ٹکڑے کر دئیے جاتے ، یا اس کے ذریعہ مردے باتیں کرنے لگتے تو یہ باتین اس قرآن میں بھی ہوتیں اور اس کے ذریعے یہ مذکور معجزات ظہور پذیر ہوتے لیکن قرآن (ہر کتاب الٰہی) تو اس لیے نازل کیا جاتا ہے کہ عوام کو ان کی ڈیوٹیاں اور ان کے فرائض سے آگاہ کیا جائے ۔ اگر یہ مخاطبین اب کفر کرنے پر تل گئے ہیں اور ہرگز مان کر نہیں دیتے تو وقت آگیا ہے کہ مومنین ان سے مایوس ہوجائیں اور ان کو چھوڑ دیں کہ مکذبین کے ساتھ اللہ کا جو سلوک ہوتا ہے وہ آجائے۔

ولو ان قراناً ۔۔۔۔۔۔ یخلف المیعاد (13 : 31) ” اور کیا ہوجاتا اگر کوئی ایسا قرآن اتار دیا جاتا جس کے زور سے پہاڑ چلنے لگتے یا زمین شق ہوجاتی ، یا مردے قبروں سے نکل کر بولنے لگتے ؟ (اس طرح کی نشانیاں دکھا دینا کچھ مشکل نہیں ہے ) بلکہ سارا اختیار ہی اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ پھر کیا اہل ایمان (ابھی تک کفار کی طلب کے جواب میں کسی نشانی کے ظہور کی آس لگائے بیٹھے ہیں اور وہ یہ جان کر ) مایوس نہیں ہوگئے کہ اگر اللہ چاہتا تو سارے انسانوں کو ہدایت دے دیتا ؟ جن لوگوں نے خدا کے ساتھ کفر کا رویہ اختیار کر رکھا ہے ان پر ان کے کرتوتوں کی وجہ سے کوئی نہ کوئی آفت آتی ہی رہتی ہے ، یا ان کے گھر کے قریب کہیں نازل ہوتی ہے۔ یہ سلسلہ چلتا رہے گا یہاں تک کہ اللہ کا وعدہ آن پورا ہو۔ یقیناً اللہ اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا “۔

حقیقت یہ ہے کہ جن لوگوں نے قرآن مجید کو قبول کیا اور اس کی کیفیات میں ڈوب گئے اس نے ان کے اندر اس قدر انقلاب برپا کردیا کہ پہاڑوں کے چلائے جانے ، زمین کے شق ہونے اور مردوں کے زندہ ہونے سے وہ بڑا معجزہ تھا۔ ان مذکور معجزات سے بھی ان لوگوں کی زندگیوں میں دور رس تبدیلی ہوئی اور بڑے معجزات رونما ہوئے۔ ان کی زندگی کی قدریں بدل دی گئیں بلکہ اسلام اور مسلمانوں نے خود اس زمین کے چہرے کو بھی بدل کر رکھ دیا اور اسلام اور مسلمانوں نے اس کرۂ ارض کی تاریخ کو بدل کر رکھ دیا۔

اس قرآن کی اثر آفرینی ، اس کی ذات اور طرز ادا میں ، اس کی دعوت اور فلسفے میں اس کے موضوعات کلام اور طرز کلام میں بذات خود ایک بڑا معجزہ ہے۔ اس کے اندر کسی بڑے سے بڑے معجزے کے مقابلے میں بہت بڑی تاثیر ہے۔ اور اس کی اس معجزانہ شان سے وہی شخص واقف ہے جو ان معالی اور فلسفوں اور انداز تعبیر اور اسالیب کلام سے واقف ہو۔ اور ان کو ان چیزوں کے سمجھنے کی ذہنی قوت مدرکہ حاصل ہو۔ جن لوگوں نے اسے سمجھا ، اس پر عمل کیا اور اس کی کیفیات اور اس کے انوار میں ڈوبے انہوں نے پہاڑوں کے چلانے سے بھی بڑے معجزے کر دکھائے۔ قرآن مجید کے اثرات کے نتیجے میں تو اقوام اور نسلوں کے حالات اور سوچ کے دھارے بدل گئے۔ انہوں نے ان چیزوں کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا جو زمین کے مقابلے میں زیادہ سخت تھیں۔ فکری جمود اور رسم و رواج کا وہ جمود جو قرآن اور مسلمانوں نے توڑا وہ زمین اور پتھروں سے کہیں زیادہ سخت تھا۔ انہوں نے ایسی اقوام کو زندہ کیا جو مردوں سے زیادہ مردہ تھیں۔ زندہ ہو کر بھی مردہ تھیں ، وہ اقوام جن کی روح کو وہم اور گمان نے قتل کردیا تھا۔ وہ بتان وہم و گمان کے پجاری تھے۔ عربوں کے اندر جو انقلاب رونما ہوا ، ان کی زندگی کے اندر جو تبدیلی نمودار ہوئی اور اس میں شک کرنے کی کوئی گنجائش نہیں یہ کہ انقلاب صرف اور صرف قرآن کی وجہ سے آیا جس نے ان کی زندگی کا منہاج ہی بدل کر رکھ دیا تو کیا یہ انقلاب پہاڑوں کے چلنے ، زمین کے ٹکڑے ہونے اور مردوں کے گویا ہونے سے کوئی کم انقلاب تھا۔

بل للہ الامر جمیعاً (13 : 31) ” بلکہ سارا اختیار اللہ کے ہاتھ میں ہے “۔ وہی ہے ، جو تحریک کی نوعیت کو اختیار کرتا ہے اور وہی ہے جو تحریک کے لئے وسائل اور ذرائع اختیار کرتا ہے۔ اگر اس قرآن کو سن کر بھی کسی قوم کے دلوں میں حرکت اور ولولہ پیدا نہیں ہوتا تو اہل ایمان جو ابھی ایسے دلوں کو حرکت میں لانے کی سعی کر رہے ہیں ان کے لئے مناسب یہی ہے کہ وہ ایسے لوگوں سے مایوس ہوجائیں ۔ ان کے معاملے کو اللہ پر چھوڑ دیں۔ اگر اللہ چاہتا تو تمام لوگوں کے اندر ہدایت کی استعداد پیدا کردیتا۔ اور انسانوں کو بھی اسی طرح ہدایت کی جبلت پر تخلیق کردیتا جس طرح فرشتوں کو اس نے ہدایت پر پیدا کیا ہے۔ یا لوگوں کو مجبور کر کے ہدایت کی راہ پر چلا دیتا لیکن اللہ نے انسانوں کے بارے میں نہ خیر کی اسکیم تیار کی اور نہ فرشتوں جیسی جبلت ان کو دی ۔ کیونکہ اللہ نے انسان کو ایک خاص مقصد کے لئے پیدا کیا ہے اور اللہ کو معلوم تھا کہ انسان اس مقصد کے تقاضے کس طرح پورے کرسکتا ہے۔

لہٰذا چاہئے کہ لوگوں کو اب اللہ کے فیصلوں پر چھوڑ دیا جائے۔ اگر اللہ نے یہ فیصلہ کر رکھا ہے کہ ان اقوام عرب کو اس طرح نیست و نابود نہ کرے گا جس طرح بعض اقوام کو ہلاک کیا گیا تھا تو ان پر کوئی نہ کوئی مصیبت آتی ہی رہتی ہے۔ یا ان کے گھروں کے قریب آتی رہتی ہے ۔ اور یہ لوگ وقتاً فوقتاً اللہ کے عذابوں کا شکار ہوتے رہتے ہیں اور ان میں سے بعض ان مصائب میں ہلاک بھی ہوجاتے ہیں۔

او تحل قریباً من دارھم (13 : 31) ” یا ان کے گھروں کے قریب نازل ہوتی ہے “۔ جس سے وہ خوفزدہ ہوجاتے ہیں اور پھر وہ نہایت ہی قلق اور خوف سے انتظار کرتے ہیں کہ کہیں اس جیسی مصیبت دوبارہ نہ آجائے۔ بعض لوگ نرم بھی ہوجاتے ہیں ، ان میں ایک تحریک پیدا ہوتی ہے اور ان کو حقیقی زندگی مل جاتی ہے۔

حتی یاتیی وعداللہ (13 : 31) ” یقیناً اللہ اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا “۔ اللہ کا وعدہ ہے کہ قیامت آنے والی ہے اور اس میں کوئی شک نہیں ہے اور ہر شخص اس دن اس انجام سے دوچار ہونے والا ہے جس کا وعدہ اللہ نے کیا ہے۔ اس بات کی مثالیں انسانی تاریخ میں موجود ہیں کہ اللہ مہلت دیتا ہے لیکن مہلت اور انتظار کے بعد اللہ کی پکڑ بھی آجاتی ہے۔

ولقد استھزیء۔۔۔۔۔۔ عقاب (13 : 32) ” اور تم سے پہلے بھی بہت سے رسولوں کا مذاق اڑایا جا چکا ہے ، مگر میں نے ہمیشہ منکرین کو ڈھیل دی اور آخر کار ان کو پکڑ لیا ، پھر دیکھ لو کہ میری سزا کیسی سخت تھی “ ۔ یہ ایک سوال ہے جس کے جواب کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ وہ عذاب ایسا رہا ہے کہ نسلیں اس کا چرچا کرتی رہیں۔

دوسرا مسئلہ شرکاء کا ہے۔ سورة کے حصہ اول میں بھی اسے چھیڑا گیا تھا۔ یہاں بھی ان بیچارون کا ذکر نہایت ہی حقارت آمیز انداز میں کیا جاتا ہے۔ یہاں اللہ کے ساتھ ان کا تقابل یوں کیا جاتا ہے کہ اللہ تو ہر تنفس پر قائم ہے ۔ وہ ہر شخص کو اس کے اعمال کا بدلہ دنیا میں بھی دیتا ہے اور جو لوگ اللہ پر یہ افتراء باندھتے ہیں کہ اس کے شریک ہیں ان کو اس دنیا میں بھی سزا دی جاتی ہے اور آخرت میں بھی سزا دی جاتی ہے اور آخرت تو بہت ہی شدید ہے۔ جبکہ اہل تقویٰ کے لئے امن و سلامتی انتظار کر رہی ہے۔

আপনার Quran.com অভিজ্ঞতা সর্বাধিক করুন!
এখনই আপনার সফর শুরু করুন:

%