انسان اپنے خدا سے عہد فطرت میں بندھا ہواہے اور دوسرے انسانوں سے عہد آدمیت میں۔ ان دونوں عہدوں کو توڑنا خدا کی زمین میں فساد کرنا ہے۔ خدا کی زمین میںاصلاح یافتہ بن کر رہنا یہ ہے کہ آدمی مذکورہ دونوں عہدوں کا پابند بن کر زندگی گزارے۔ اس کے برعکس ،خدا کی زمین میں فسادی بننا یہ ہے کہ آدمی ان عہدوں سے آزاد ہو جائے۔ اس کو نہ خدا کے حقوق کی پروا ہو اور نہ انسانوں کے حقوق کی۔
ایسے لوگ خدا کے نزدیک لعنت زدہ ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو خدا کی رحمتوں میں حصہ دار نہیں بنائے جائیں گے۔ انھوںنے خداکی زمین کو گندا کیا، اس لیے وہ اسی قابل ہیں کہ آئندہ ان کو صرف گندے گھر میں جگہ ملے۔
دنیامیں کسی کو کم ملتاہے اور کسی کو زیادہ۔ اب جس کو زیادہ ملا وہ احساس برتری میں مبتلا ہوجاتاہے اور جس کو کم ملا وہ احساس کمتری میں۔ مگر خدا کی نظرمیں یہ دونوں غلط ہیں۔ صحیح ردعمل یہ ہے کہ زیادہ ملے تو آدمی خدا کا شکر گزار بنے، کم ملے تو وہ صبر اور قناعت کا طریقہ اختیار کرے۔
دنیا پرست لوگ ہمیشہ حق کے داعی کو نظر انداز کردیتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا پرست آدمی صرف ظاہری عظمتوں کو پہچاننا جانتاہے۔ چوں کہ داعی کے پاس صرف معنوی عظمت ہوتی ہے اس لیے وہ اس کو پہچان نہیں پاتا۔ وہ اس کوحقیر سمجھ کر نظر انداز کردیتاہے۔ مگر جب حقیقت کا پردہ پھٹے گا اس وقت انسان جانے گا کہ جس نظر آنے والی رونق کو وہ سب کچھ سمجھے ہوئے تھا وہ بالکل بے قیمت تھی۔ قدر وقیمت کی چیز دراصل وہ تھی جو دکھائی نہ دینے کی وجہ سے اس کی توجہ كا مرکز نہ بن سکی۔
০%