قالوا يا شعيب اصلاتك تامرك ان نترك ما يعبد اباونا او ان نفعل في اموالنا ما نشاء انك لانت الحليم الرشيد ٨٧
قَالُوا۟ يَـٰشُعَيْبُ أَصَلَوٰتُكَ تَأْمُرُكَ أَن نَّتْرُكَ مَا يَعْبُدُ ءَابَآؤُنَآ أَوْ أَن نَّفْعَلَ فِىٓ أَمْوَٰلِنَا مَا نَشَـٰٓؤُا۟ ۖ إِنَّكَ لَأَنتَ ٱلْحَلِيمُ ٱلرَّشِيدُ ٨٧
قَالُوْا
یٰشُعَیْبُ
اَصَلٰوتُكَ
تَاْمُرُكَ
اَنْ
نَّتْرُكَ
مَا
یَعْبُدُ
اٰبَآؤُنَاۤ
اَوْ
اَنْ
نَّفْعَلَ
فِیْۤ
اَمْوَالِنَا
مَا
نَشٰٓؤُا ؕ
اِنَّكَ
لَاَنْتَ
الْحَلِیْمُ
الرَّشِیْدُ
۟

بعض مرتبہ ایسا ہوتاہے کہ نمازبول کر دین مراد لیا جاتاہے۔ مطلب یہ ہے کہ کیا تمھارا دین تم کو ایسا حکم دے رہا ے۔ انھوں نے نماز کا لفظ اس لیے استعمال کیا کہ نماز دین کی سب سے زیادہ واضح علامت ہے۔ (وقد يراد بالصلاة الدينُ والمعنىدينُك يأمرك بذلك؟ وأطلق عليه الصلاة لأنها أظهر شعار الدين) صفوۃ التفاسیر، جلد2، صفحہ 25

حضرت شعیب کی قوم دین دار ہونے کی مدعی تھی۔ وہ عبادت بھی کرتی تھی۔ مگر انھوں نے اپنے دین اور عبادت کے ساتھ شرک اور بد معاملگی کو بھی جمع کررکھا تھا۔ حضرت شعیب نے ان کو سچی خدا پرستی اور لوگوں کے ساتھ حسن معاملہ کی دعوت دی اور کہا کہ دین کے ساتھ اگر شرک ہے اور عبادت کے ساتھ اگر بد معاملگی بھی جاری ہے تو ایسے دین اور ایسی عبادت کی خدا کے یہاں کوئی قیمت نہیں۔

اس قسم کی باتوں سے قوم کا دینی بھرم کھلتا تھا۔ اس سے ان کے اس زعم پر زد پڑتی تھی کہ سب کچھ کرتے ہوئے بھی وہ دین دار ہیں اور عبادت گزاری کا تمغہ بھی ہر حال میں انھیں ملا ہوا ہے۔ چنانچہ وہ بگڑ گئے۔ انھوں نے کہا کہ کیا تم ہی ایک خدا کے عبادت گزار ہو۔ کیا ہمارے وہ تمام بزرگ جاہل تھے یا ہیں جن کے طریقہ کو ہم نے اختیار کررکھا ہے۔ کیا تمھارے سوا کوئی یہ جاننے والا نہیں کہ عبادت کیا ہے اور اس کے تقاضے کیا ہیں۔ شاید تم سمجھتے ہو کہ صرف تم ہی دنیا بھر میں ایک سمجھ دار اور صالح پیدا ہوئے ہو۔

قوم شعیب کو وہ لوگ زیادہ بڑے معلوم ہوتے تھے جو لمبی روایات کے نتیجہ میں بڑے بن چکے تھے۔ یا جواب اونچی گدیوں پر بیٹھے ہوئے تھے۔ اسی لیے ان کو حضرت شعیب کے بارے میںایسا کہنے کی جرأت ہوئی۔