الم يجدك يتيما فاوى ٦
أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيمًۭا فَـَٔاوَىٰ ٦
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
٣

آیت 6{ اَلَمْ یَجِدْکَ یَتِیْمًا فَاٰوٰی۔ } ”کیا اس نے نہیں پایا آپ کو یتیم ‘ پھر پناہ دی !“ یہ آیات سیرت النبی ﷺ کے مختلف پہلوئوں کو سمجھنے کے حوالے سے بھی بہت اہم ہیں۔ حضور ﷺ کے والد آپ ﷺ کی پیدائش سے پہلے ہی وفات پا چکے تھے۔ چناچہ آپ ﷺ پیدا ہی یتیمی کی حالت میں ہوئے۔ چھ سال کی عمر میں والدہ کا سہارا بھی چھن گیا۔ دادا نے اپنی کفالت میں لیا تو دو سال بعد وہ بھی چھوڑ کر چلے گئے۔ تایا زبیر بن عبدالمطلب سرپرست بنے تو کچھ عرصہ بعد ان کا بھی انتقال ہوگیا حضور ﷺ کی کفالت کے حوالے سے آپ ﷺ کے تایا زبیر بن عبدالمطلب کا ذکر اکثر تاریخی حوالوں میں موجود ہی نہیں۔ ایسا دراصل جناب ابوطالب کے کردار کو زیادہ نمایاں کرنے کے لیے جان بوجھ کر باقاعدہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کیا گیا ہے۔ اس کے بعد جناب ابوطالب نے آپ ﷺ کے سرپردست شفقت رکھا اور انہی کی سرپرستی میں آپ ﷺ جوانی کی عمر کو پہنچے۔ آیت کے لفظ ”فَاٰوٰی“ میں ان تمام دنیوی سہاروں کی طرف اشارہ ہے جو ظاہر ہے آپ ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے فراہم کیے تھے اور اللہ تعالیٰ نے ہی ان تمام رشتہ داروں کے دلوں میں آپ ﷺ کے لیے محبت اور چاہت پیدا کی تھی۔ اسی نے آپ ﷺ کی شخصیت ایسی بنائی تھی کہ جو کوئی آپ ﷺ کو دیکھتا آپ ﷺ کا گرویدہ ہوجاتا تھا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بھی بچپن میں سہارا دیا تھا۔ سورة طٰہٰ میں اللہ تعالیٰ کی اس قدرت اور حکمت کا ذکر اس طرح آیا ہے : { وَاَلْقَیْتُ عَلَیْکَ مَحَبَّۃً مِّنِّیْج } آیت 39 کہ اے موسیٰ علیہ السلام میں نے آپ پر اپنی محبت کا َپرتو ڈال دیا تھا جس کی وجہ سے لوگ آپ کو دیکھ کر متاثر ہوجاتے تھے اور یوں وہ آپ علیہ السلام کو قتل کرنے سے باز رہے۔