آیت ” نمبر 55 تا 56۔
یہ ہدایات ایسے وقت میں دی جارہی ہیں جبکہ مطالعہ کرنے والا نفسیانی طور پر ان کو قبول کرنے کے لئے پوری طرح آمادہ ہوجاتا ہے ۔ وہ دعاء اور رجوع الی اللہ کی حالت میں ہوتا ہے اور اس عظیم کارخانہ قدرت کے مطالعہ کے بعد اللہ کے سامنے عاجزی اور فروتنی کی حالت میں ہوتا ہے ۔ خفیہ سے مراد یہ ہے کہ چیخ و پکار نہ کرو ‘ دھیمی آواز سے پکارو کیونکہ اللہ کی جلالت شان کے لائق یہ ہے کہ انسان اسے نہایت ہی نرم اور دھیمی آواز میں پکارے اور اس انداز میں جس سے معلوم ہو کہ اللہ قریب ہے اور سن رہا ہے ۔
مسلم کی روایت ہے۔ حضرت ابو موسیٰ ؓ روایت کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھے ۔ ایک روایت میں آتا ہے ایک غزوہ میں تھے ‘ لوگوں نے زور زور سے اللہ اکبر کہنا شروع کردیا ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا لوگوذرا نرمی کے ساتھ اور اپنے دل میں پکارو ‘ تم کسی بہرے کو نہیں پکار رہے اور نہ کسی ایسے شخص کو پکار رہے ہو جو غائب ہے ‘ تم تو سننے والی قریب ذات کو پکار رہے ہو جو تمہارے ساتھ ہے ۔
یہاں قرآن کریم کا یہ اسلوب لوگوں کے اندر یہ احساس پیدا کر رہا ہے کہ اللہ کی ذات جلیل القدر ہے اور قریب ہے اور دعا اور پکارنے کے وقت قرآن کریم عملا ایسی ہئیت اور شکل پیدا کرنا چاہتا ہے جس سے یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ پکارنے والا ذات باری کی برتری کی وجہ سے چیخنے اور چلانے سے حیا کرتا ہے ۔ جن لوگوں کے دل میں اللہ کی جلالت قدر بیٹھی ہوئی ہے وہ اللہ کی جناب میں شور وشغب سے دور رہتے ہیں ۔
غرض اس عاجزانہ دعا اور انکساری اور خشوع و خضوع کی فضا میں ‘ اللہ تعالیٰ لوگوں کو اس بات کی ممانعت کردیتے ہیں کہ وہ اپنے لئے اس حاکمیت کا دعوی کریں جو وہ ایام جاہلیت میں کیا کرتے تھے کیونکہ حاکمیت اور اقتدار اعلی کا حق صرف اللہ کو ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ ممانعت بھی آجاتی ہے کہ فساد فی الارض سے باز رہو ‘ جبکہ اسلامی شریعت کے نظام کے ذریعے اللہ نے اس کی اصلاح کردی ہے ۔ جو شخص عاجزی ‘ تضرع اور نہایت ہی خفیہ طریقے سے اللہ کو پکارتا ہے جو قریب بھی ہے اور سننے والا بھی ہے تو ظاہر ہے کہ ایسا شخص زمین میں اصلاح کے بعد فساد نہیں پھیلاتا کیونکہ ان دونوں تاثرات کے درمیان ایک گہرا داخلی اور نفسیانی ربط ہے ۔ قرآن کا منہاج اصلاح یہ ہے کہ وہ دلوں کی گہری سوچوں اور نفسیاتی میلانات کو لے کر چلتا ہے اور یہ منہاج وہی ذات اختیار کرسکتی ہے جو لطیف وخبیر ہے ۔
آیت ” ادْعُواْ رَبَّکُمْ تَضَرُّعاً وَخُفْیَۃً إِنَّہُ لاَ یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ (55) وَلاَ تُفْسِدُواْ فِیْ الأَرْضِ بَعْدَ إِصْلاَحِہَا وَادْعُوہُ خَوْفاً وَطَمَعاً إِنَّ رَحْمَتَ اللّہِ قَرِیْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِیْنَ (56)
اپنے رب کو پکارو گڑ گڑاتے ہوئے اور چپکے چپکے ‘ یقینا وہ حد سے گزرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔ زمین میں فساد برپا نہ کرو ‘ جبکہ اس کی اصلاح ہوچکی ہے اور خدا ہی کو پکارو خوف کے ساتھ اور طمع کے ساتھ یقینا اللہ کی رحمت نیک کردار لوگوں سے قریب ہے ۔ “
خوف اس لئے کہ تم اس کے غضب سے بچ جاؤ اور طمع اس لئے کرو کہ وہ تم سے راضی ہوگا اور اجر دے گا ۔ جو لوگ اللہ کی عبادت کرتے ہیں اور اس طرح کرتے ہیں کہ گویا اللہ کو دیکھ رہے ہیں اور اگر وہ اسے دیکھ نہیں رہے تو ان کی حالت ایسی ہو کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اللہ انہیں دیکھ رہا ہے ۔ جیسا کہ حدیث کے مضمون میں آتا ہے تو یہ ہے احسان ۔ حضور ﷺ کی تعریف کے مطابق ۔
ایک بار پھر قرآن کریم اس کھلی کائنات کا ایک دوسرا ورق انسان کے مطالعے کیلئے الٹتا ہے ۔ یہ ورق تو ہمارے سامنے ہر وقت کھلا رہتا ہے لیکن ہم غفلت میں اس کے پاس سے گزر جاتے ہیں ہیں ہم اس سے کوئی تاثر نہیں لیتے ‘ ہم اس کی پکار کو نہیں سنتے ۔ یہ وہ صفحہ ہے کہ آیت سابقہ میں رحمت الہیہ کے ضمن میں اس کی طرف اشارہ کردیا گیا ہے ۔ یہاں رحمت الہیہ کے ایک نمونے کے طور پر اسی صفحے کو کھولا جا رہا ہے ۔ آسمانوں سے پانی گر رہا ہے ‘ زمین سے مختلف قسم کی فصلیں اگ رہی ہیں اور زمین مرنے کے بعد دوبارہ جی اٹھتی ہے یعنی سرسبز ہوجاتی ہے ۔