عبد اللہ بن عباس ؓ نے فرمایا کہ اللہ نے ہر امت کے لیے ایک عید کا دن مقرر کیا تاکہ اس دن وہ اللہ کی بڑائی کریںاور اس کی عبادت کریں اور اللہ کی یاد سے اس کو معمور کریں۔ مگر بعد کے لوگوں نے اپنی عید (مذہبی تیوہار) کو کھیل تماشا بنا لیا (تفسیر کبیر، جلد
ہر دینی عمل کا ایک مقصد ہوتا ہے اور ایک اس کا ظاہری پہلو ہوتا ہے۔ عید كا مقصد اللہ کی بڑائی اور اس کی یاد کا اجتماعی مظاہرہ ہے۔ مگر عید کی ادائیگی کے کچھ ظاہری پہلو بھی ہیں۔ مثلاً کپڑا پہننا یا اجتماع کا سامان کرنا وغیرہ۔ اب عید کو کھیل تماشا بنانا یہ ہے کہ اس کے اصل مقصد پر توجہ نہ دی جائے البتہ اس کے ظاہری اور مادی پہلوؤں کی خوب دھوم مچائی جائے۔ مثلاً کپڑوں اور سامانوں کی نمائش، خرید وفروخت کے ہنگامے، تفریحات کا اہتمام، اپنی حیثیت اور شان وشوکت کے مظاہرے، وغیرہ۔
امتوں کے بگاڑ کے زمانے میں یہی معاملہ تمام دینی اعمال کے ساتھ پیش آتا ہے۔ لوگ دینی عمل کی اصل حقیقت کو الگ کرکے اس کے ظاہری پہلو کو لے لیتے ہیں۔ اب جو لوگ اس نوبت کو پہنچ جائیں کہ وہ دین کے مقصدی پہلو کو بھلا کر اس کو اپنے دنیوی تماشوں کا عنوان بنالیں وہ اپنے اس عمل سے ثابت کررہے ہیں کہ وہ دین کے معاملہ میں سنجیدہ نہیں ہیں اور جو لوگ کسی معاملہ میں سنجیدہ نہ ہوں ان کو اس معاملہ کی کوئی ایسی بات سمجھائی نہیں جاسکتی جو ان کے مزاج کے خلاف ہو۔ مزید یہ کہ مادی چیزوں کا مالک ہونا ان کو اس غلط فہمی میں مبتلا کردیتاہے کہ سچائی کے مالک بھی وہی ہیں۔ وہ دیکھتے ہیں کہ یہاں ان کی ضرورتیں بفراغت پوری ہورہی ہیں۔ ہر جگہ وہ رونق محفل بنے ہوئے ہیں۔ ان کی زندگی میں کہیں کوئی رخنہ نہیں۔ اس لیے وہ سمجھ لیتے ہیں کہ آخرت میں بھی وہی کامیاب رہیں گے۔ ایسے لوگ عین اپنی نفسیات کی بنا پر آخرت کی باتوں کے بارے میں سنجیدہ نہیں ہوتے۔ مگر وہ جان لیں کہ وہ جو کچھ کررہے ہیں وہ یوں ہی ختم ہوجانے والا نہیں۔ ان کا عمل ان کو گھیرے میں لے رہا ہے۔ عنقریب وہ اپنی سرکشی میں پھنس کر رہ جائیں گے اور کسی حال میں اس سے چھٹکارا نہ پاسکیں گے۔
٠%