الذي خلق سبع سماوات طباقا ما ترى في خلق الرحمان من تفاوت فارجع البصر هل ترى من فطور ٣
ٱلَّذِى خَلَقَ سَبْعَ سَمَـٰوَٰتٍۢ طِبَاقًۭا ۖ مَّا تَرَىٰ فِى خَلْقِ ٱلرَّحْمَـٰنِ مِن تَفَـٰوُتٍۢ ۖ فَٱرْجِعِ ٱلْبَصَرَ هَلْ تَرَىٰ مِن فُطُورٍۢ ٣
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
٣

” ان شیطان کے لئے بھڑکتی ہوئی آگ ہم نے مہیا کررکھی ہے۔ جن لوگوں نے اپنے رب سے کفر کیا ہے ان کے لئے جہنم کا عذاب اور وہ بہت ہی برا ٹھکانا ہے۔ جب وہ اس میں پھینکے جائیں گے تو اس کے دہاڑنے کی ہولناک آواز سنیں گے اور وہ جوش کھارہی ہوگی ، شدت غضب سے پھٹی جاتی ہوگی۔ ہر بار جب کوئی انبوہ اس میں ڈالا جائے گا ، اس کے کارندے ان لوگوں سے پوچھیں گے ” کیا تمہارے پاس کوئی خبردار کرنے والا نہیں آیا تھا ؟ “ وہ جواب دیں گے ” ہاں ! خبردار کرنے والا ہمارے پاس آیات تھا مگر ہم نے اسے جھٹلادیا اور کہا اللہ نے کچھ بھی نازل نہیں کیا ہے ، تم بڑی گمراہی میں پڑے ہوئے ہو “۔ اور کہیں گے ” کاش ہم سنتے یا سمجھتے تو آج اس بھڑکتی ہوئی آگ کے سزاواروں میں نہ شامل ہوتے “۔ اس طرح وہ اپنے قصور کا خود اعتراف کرلیں گے ، لعنت ہے ان دوزخیوں پر “۔

ان آیات میں جو باتیں بتائی گئی ہیں وہ پہلی آیت کا مفہوم ہیں اور اس کی مثالیں ہیں۔ اللہ اپنی بادشاہت کو جس طرح چلاتا ہے اس کے مظاہر ہیں اور اللہ کی بےقید قدرت کے آثار ہیں۔ اور پھر تفصیلات میں انسان کی آزمائش اور جزاوسزا کی۔ تہہ بہ تہہ سات آسمانوں کا مطلب ہم موجودہ فلکی نظریات سے اخذ نہیں کرسکتے کیونکہ فلکی نظریات ، جوں جوں ہمارے آلات مشاہدہ آگے بڑھتے ہیں ، بدلتے رہتے ہیں۔ آیت سے جو کچھ معلوم ہوتا ہے وہ فقط اس قدر ہے کہ اوپر کی کائنات کے سات ایسے طبقے ہیں جو ایک دوسرے سے ایک فاصلے پر ہیں ، اس لئے انہیں طبقات کہا گیا ہے۔

قرآن مجید ہماری نظر کو زمین و آسمان کی تخلیق کی طرف مبذول کرتا ہے اور انسانوں کو یہ چیلنج کرتا ہے کہ ذرا زمین و آسمان کے اس نظام کو دیکھو ، اس میں کوئی نقص بھی ہے۔ تمہارا مشاہدہ تھک تھکا کر عاجز رہ جائے گا اور اسے کوئی نقص نظر نہ آئے گا۔

ماتری .................... تفوت (76 : 3) ” تم رحمن کی تخلیق میں کسی قسم کی بےربطی نہ پاﺅ گے “۔ اللہ کی مخلوقات میں نہ کہیں خلل ہے ، نہ نقص ہے اور نہ اضطراب ہے۔

فارجع البصر (76 : 3) فارجع ” پھر پلٹ کر دیکھو “۔ دوبارہ کوشش کرو ، اچھی طرح معلوم کرنے کی کوشش کرو۔

ھل تری من فطور (76 : 3) ” کہیں تمہیں کوئی خلل نظر آتا ہے “۔ کیا تمہاری نظروں نے کوئی شگاف دیکھا ، کوئی نقص اور کوئی خلل دیکھا ؟