قل ارايتم ان اهلكني الله ومن معي او رحمنا فمن يجير الكافرين من عذاب اليم ٢٨
قُلْ أَرَءَيْتُمْ إِنْ أَهْلَكَنِىَ ٱللَّهُ وَمَن مَّعِىَ أَوْ رَحِمَنَا فَمَن يُجِيرُ ٱلْكَـٰفِرِينَ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍۢ ٢٨
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
٣

قل ارئیتم ............................ عذاب الیم

” یہ ایسا سوال ہے ، جو انہیں سنجیدہ غوروفکر کی دعوت دیتا ہے اور یہ دعوت ہے کہ اپنے معاملات پر ذرا غور کرو ، تمہارے لئے بہتر یہ ہے۔ اگر نبی اور اس کے مٹھی بھر ساتھی ہلاک بھی ہوجائیں تو تمہیں کیا فائدہ ہوگا۔ اللہ تو باقی ہے۔ نبی اور اس کے ساتھی اللہ کے دائرہ رحم میں ہیں۔ لیکن تمہیں تو اس کے سامنے جانا ہے۔ اس نے تمہیں پیدا کیا اور اسی کی طرف جانا ہے۔ تمہاری تیاری کیا ہے ؟

یہ سیاق کلام میں۔

من ................ الکفرین (76 : 82) ؟ ؟ کہا جاتا ہے۔ یہ نہیں کہا جاتا کہ تم کافر ہو ، بلکہ یہ کہ جو کافر ہوں گے ان کو کون بچائے گا۔ اشارہ یہ ہے کہ عذاب کافروں کے لئے ہے۔

فمن ........................ الیم (76 : 82) ” کافروں کو درد ناک عذاب سے کون بچائے گا “۔ یہ دعوت کا حکیمانہ اسلوب ہے۔ ایک طرف انہیں ڈرایا جاتا ہے دوسری جانب اشارہ دیا جاتا ہے کہ واپس ہوجاﺅ حماقت کا راستہ اختیار کرکے منہ آتے۔ اور براہ راست اقدام کی وجہ سے عناد میں مبتلا ہوجاتے۔

بعض اوقات اشاراتی انداز صریح انداز سے زیادہ اثر کرتا ہے۔” نہ ہم سمجھے کہ تم آئے کہیں سے “۔ ایسا انداز بہت موثر ہوتا ہے۔

اب اس اشارہ کے بعد دونوں موقف برابر نہیں ہیں۔ مومنین کو اپنے رب پر بھروسہ ہے۔ وہ توکل علی اللہ کرکے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں ، اور اپنے ایمان پر وہ مطمئن ہیں ، وہ یقین رکھتے ہیں کہ وہ راہ ہدایت پر ہیں اور دراصل کھلی گمراہی میں تو ان کا فریق مخالف مبتلا ہے۔