فاذا بلغن اجلهن فامسكوهن بمعروف او فارقوهن بمعروف واشهدوا ذوي عدل منكم واقيموا الشهادة لله ذالكم يوعظ به من كان يومن بالله واليوم الاخر ومن يتق الله يجعل له مخرجا ٢
فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ فَارِقُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍۢ وَأَشْهِدُوا۟ ذَوَىْ عَدْلٍۢ مِّنكُمْ وَأَقِيمُوا۟ ٱلشَّهَـٰدَةَ لِلَّهِ ۚ ذَٰلِكُمْ يُوعَظُ بِهِۦ مَن كَانَ يُؤْمِنُ بِٱللَّهِ وَٱلْيَوْمِ ٱلْـَٔاخِرِ ۚ وَمَن يَتَّقِ ٱللَّهَ يَجْعَل لَّهُۥ مَخْرَجًۭا ٢
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
٣

آیت 2 { فَاِذَا بَلَغْنَ اَجَلَہُنَّ فَاَمْسِکُوْہُنَّ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ فَارِقُوْہُنَّ بِمَعْرُوْفٍ } ”پھر جب وہ اپنی عدت کی میعاد کو پہنچنے لگیں تو اب ان کو یا تو اپنے نکاح میں روک رکھو معروف طریقے سے ‘ یا جدا کردو معروف طریقے سے“ یعنی ایک یا دو طلاق دینے کی صورت میں عدت پوری ہوجانے سے پہلے مرد کو حتمی فیصلہ کرنا ہوگا۔ اگر تو وہ رجوع کرنا چاہتا ہے تو شریعت کے طے کردہ طریقے سے رجوع کرلے اور اگر اس نے طلاق ہی کا فیصلہ کرلیا ہے تو پھر بھلے طریقے سے عورت کو گھر سے رخصت کر دے۔ ایسا نہ ہو کہ وہ اسے ستانے کی غرض سے روکے رکھے۔ { وَّاَشْھِدُوْا ذَوَیْ عَدْلٍ مِّنْکُمْ } ”اور اپنے میں سے دو معتبر اشخاص کو گواہ بنا لو“ یعنی اگر کوئی طلاق کے بعد رجوع کرنا چاہے تو وہ اپنے لوگوں میں سے کم از کم دو معتبر اشخاص کی موجودگی میں ایسا کرے۔ { وَاَقِیْمُوا الشَّہَادَۃَ لِلّٰہِ } ”اور گواہی قائم کرو اللہ کے لیے۔“ { ذٰلِکُمْ یُوْعَظُ بِہٖ مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ } ”یہ ہے جس کی نصیحت کی جا رہی ہے ہراس شخص کو کہ جو ایمان رکھتا ہو اللہ پر اور یوم آخر پر۔“ اس سے ملتے جلتے الفاظ سورة الاحزاب کی آیت 21 میں حضور ﷺ کے اسوہ اور سورة الممتحنہ کی آیت 6 میں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور آپ علیہ السلام کے ساتھیوں کے اسوہ کے بارے میں بھی آئے ہیں۔ مطلب یہ کہ حضور ﷺ کا اُسوئہ کاملہ تو اپنی جگہ پر موجود ہے ‘ اسی طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام اور آپ علیہ السلام کے ساتھیوں کی زندگی بھی مثالی نمونہ ہے ‘ لیکن کس کے لیے ؟ { لِمَنْ کَانَ یَرْجُوا اللّٰہَ وَالْیَوْمَ الْاٰخِرَ }۔ یعنی حضور ﷺ اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اُسوئہ حسنہ سے استفادہ صرف وہی شخص کرسکتا ہے جو اللہ تعالیٰ سے ملاقات اور یوم آخرت کی حاضری کی امید رکھتا ہے۔ چناچہ آیت زیر مطالعہ کے اس جملے کا مفہوم بھی یہی ہے کہ مسائل طلاق سے متعلق یہ وعظ اور نصیحت صرف اسی شخص کے لیے فائدہ مند ہوسکتی ہے جو واقعی اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو۔ { وَمَنْ یَّــتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّـہٗ مَخْرَجًا } ”اور جو شخص اللہ کا تقویٰ اختیار کرے گا ‘ اللہ اس کے لیے مشکلات سے نکلنے کا راستہ پیدا کر دے گا۔“ اللہ کے تقویٰ کا مقام و مرتبہ واضح کرنے کا یہ بہت حسین اور دلکش انداز ہے اور اس اعتبار سے یہ قرآن مجید کا منفرد مقام ہے۔ یہاں پر ایک اہم نکتہ یہ سمجھ لیں کہ حقیقی تقویٰ دل کا تقویٰ ہے ‘ جس کے بارے میں حضور ﷺ نے ایک مرتبہ اپنے دست مبارک سے اپنے سینہ مبارک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : اَلتَّقْوٰی ھٰھُنَا ، اَلتَّقْوٰی ھٰھُنَا ، اَلتَّقْوٰی ھٰھُنَا 1 کہ اصل تقویٰ یہاں دل کے اندر ہوتا ہے۔ آپ ﷺ نے یہ بات تین مرتبہ ارشاد فرمائی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تقویٰ کا براہ راست تعلق انسان کے دل کے ساتھ ہے۔ اگر دل میں تقویٰ نہیں تو ّجبہ و دستار کا اہتمام اور متقیانہ وضع قطع کی حیثیت بہروپ سے زیادہ کچھ نہیں۔ چناچہ اس آیت میں اہل تقویٰ کو بہت بڑی بشارت سنائی جا رہی ہے کہ اگر کسی بندئہ مومن کا تقویٰ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں مقبول و منظور ہوا تو اس کے لیے مشکل سے مشکل صورت حال سے نکلنے کا کوئی نہ کوئی راستہ ضرور پیدا کردیا جائے گا ‘ جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کو لے کر مصر سے نکلے تو فرعون نے انہیں ساحل سمندر پر جا لیا۔ اب آگے سمندر تھا اور پیچھے فرعون کا لشکر۔ بظاہر بچ نکلنے کا کوئی راستہ نہیں تھا ‘ مگر اللہ تعالیٰ نے سمندر کو پھاڑ کر ان کے لیے راستہ پیدا کردیا۔ اسی طرح جب حضور ﷺ غارِ ثور میں تشریف فرما تھے تو مشرکین مکہ میں سے کچھ لوگ آپ ﷺ کے کھوج میں غار کے دہانے پر پہنچ گئے تھے۔ انہیں دیکھ کر حضرت ابوبکر رض نے عرض کیا کہ حضور ﷺ ! اگر ان لوگوں نے نیچے اپنے قدموں کی طرف بھی دیکھ لیا تو ہم انہیں نظر آجائیں گے۔ حضور ﷺ نے حضرت ابوبکر رض کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا : { لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَاج } التوبۃ : 40 کہ آپ فکر مت کریں ‘ اللہ ہمارے ساتھ ہے ! اس موقع پر بھی اللہ تعالیٰ نے ایسی صورت حال پیدا فرما دی کہ مشرکین آپ ﷺ کو نہ دیکھ سکے۔ حضور ﷺ کے سفر طائف کی مثال لیں تو بظاہر وہاں سے آپ ﷺ خالی ہاتھ واپس آئے تھے ‘ لیکن اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کے لیے مدینہ سے کھڑکی کھول دی اور ایسے حالات پیدا فرما دیے کہ آپ ﷺ کے مدینہ تشریف لے جانے سے پہلے ہی وہاں انقلاب آگیا۔ یہ مثالیں گواہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ مشکل سے مشکل حالات میں بھی اپنے متقی بندوں کے لیے ضرور ”مخرج“ پیدا فرماتا ہے۔ چناچہ اقامت دین کی جدوجہد میں مصروف اہل ایمان کے لیے آیت زیر مطالعہ کے ان الفاظ میں یہ خوشخبری ہے کہ وہ اللہ کا تقویٰ اختیار کرتے ہوئے اپنی کوششیں پورے خلوص سے جاری رکھیں۔ جب اللہ تعالیٰ کو ان کوششوں کی کامیابی منظور ہوگی تو حیرت انگیز طریقے سے منزل خود چل کر ان کے سامنے آجائے گی۔