ق والقران المجيد ١
قٓ ۚ وَٱلْقُرْءَانِ ٱلْمَجِيدِ ١
undefined
undefined
undefined
undefined
٣

درس نمبر 247 ایک نظر میں

یہ اس سورت کا پہلا سبق ہے۔ اس کا موضوع مسئلہ بعث بعد الموت ہے۔ مشرکین مکہ اس کا انکار کرتے تھے بلکہ جو لوگ بعث بعد الموت کے قائل تھے وہ ان کی جانب سے یہ عقیدہ رکھنے پر تعجب کرتے تھے۔ لیکن قرآن صرف ان کے اس غلط خیال ہی کو موضوع بحث نہیں بناتا۔۔۔۔ ۔ انکار پر بحیثیت مجموعی تنقید کرتا ہے اور ان کی اصلاح کر کے اور ان کی کج فکری کو درست کر کے ان کو سچائی کی راہ کی طرف لوٹانے کی کوشش کرتا ہے۔ قرآن کریم کی سعی یہ ہے کہ ان کے غافل دلوں کو جھنجھوڑے اور خوب جگائے تا کہ وہ اس کائنات کے اندر جو عظیم حقائق ہیں ، ان کو سمجھنے کے لئے اپنے دل کے دروازے کھولیں ۔ اس لیے قرآن کریم محض منطقی انداز مناظرہ میں ان کے ساتھ موضوع بعث بعد الموت پر کوئی مباحثہ نہیں کرتا ۔ وہ صرف ان کے مردہ دلوں کو زندہ کرتا ہے۔ ان کے زنگ آلود دماغ کو صیقل کرتا ہے کہ وہ غور وفکر سے کام لیں۔ وہ ان کے وجدان کو چھوتا ہے تا کہ اس کے اندر احساس تیز ہو اور وہ اپنے ماحول کے اندر پائے جانے والے حقائق سے براہ راست متاثر ہو سکے۔ یہ ایک ایسا سبق ہے جس سے وہ لوگ خوب استفادہ کرسکتے ہیں جن کا کام دلوں کی اصلاح کرنا ہو۔

سورت کا آغاز حرف ق اور قرآن مجید کی قسم سے ہوتا ہے ، مطلب یہ کہ یہ قرآن مجید تو ایسے ہی حروف سے مرکب ہے اور لفظ قرآن کا پہلا حرف ہی قاف ہے۔

٭٭٭٭٭

یہاں اس بات کا ذکر نہیں کیا گیا کہ کس بات پر قسم اٹھائی جا رہی ہے۔ یہ قسم کلام کے آغاز میں ہے۔ اس کا پہلا مطلب یہ ہے کہ اللہ اپنے کلام کا آغاز قسم سے کر رہا ہے ، لہٰذا بیدار ہوجاؤ، معاملہ غیر معمولی ہے۔ اللہ اور قسم ، لہٰذا معاملہ خطرناک ہے۔ شاید اس آغاز کا مقصد یہی ہے کیونکہ بجائے اس کے کہ بعد میں وہ بات ذکر کی جائے جس کے لئے قسم اٹھائی جا رہی ہے ، حرف اضراب “ بل ” کو لایا گیا ہے۔ کیونکہ قسم نے مخاطب پر خوب اثر ڈال دیا۔ اس لیے اب ان کے تعجب اور بعث بعد موت کو ایک “ انہونی بات سمجھنے ” کے موضوع کو لیا جاتا ہے ، اس اندز میں کہ گویا مشرکین کے سامنے جب رسول اللہ ﷺ نے دوبارہ اٹھائے جانے کی بات کی تو انہوں نے اس کا یوں انکار کردیا گویا کفار کے نزدیک یہ ایک نئی بات ہے۔