ها انتم هاولاء تدعون لتنفقوا في سبيل الله فمنكم من يبخل ومن يبخل فانما يبخل عن نفسه والله الغني وانتم الفقراء وان تتولوا يستبدل قوما غيركم ثم لا يكونوا امثالكم ٣٨
هَـٰٓأَنتُمْ هَـٰٓؤُلَآءِ تُدْعَوْنَ لِتُنفِقُوا۟ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ فَمِنكُم مَّن يَبْخَلُ ۖ وَمَن يَبْخَلْ فَإِنَّمَا يَبْخَلُ عَن نَّفْسِهِۦ ۚ وَٱللَّهُ ٱلْغَنِىُّ وَأَنتُمُ ٱلْفُقَرَآءُ ۚ وَإِن تَتَوَلَّوْا۟ يَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ ثُمَّ لَا يَكُونُوٓا۟ أَمْثَـٰلَكُم ٣٨
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
٣

آخر میں ان کی واقعی صورت حالات ان کے سامنے پیش کی جاتی ہے کہ ان حالات میں انفاق فی سبیل اللہ کی ضرورت ہے۔ قرآن اپنے خوبصورت انداز میں ان کے دلوں کے بخل کا علاج کرتا ہے ۔ جس طرح قرآن نے جانی قربانی کے سلسلے میں ان کی تربیت کی۔

ھانتم ھولاء ۔۔۔۔ یکونوا امثالکم (47 : 38) ” دیکھو ، تم لوگوں کو دعوت دی جا رہی ہے کہ اللہ کی راہ میں مال خرچ کرو۔ اس پر تم میں سے کچھ لوگ ہیں جو بخل کر رہے ہیں ، حالانکہ جو بخل کرتا ہے وہ درحقیقت اپنے آپ ہی سے بخل کر رہا ہے۔ اللہ تو غنی ہے ، تم ہی اس کے محتاج ہو۔ اگر تم منہ موڑو گے تو اللہ تمہاری جگہ کسی اور قوم کو لے آئے گا اور وہ تم جیسے نہ ہوں گے “۔

قرآن کریم اس وقت کے معاشرے کا نقشہ نہایت ہی خوبصورتی سے کھینچا ہے اور یہ بتاتا ہے کہ ہر معاشرے میں مالی انفاق کی دعوت کے سلسلے میں بعض لوگوں کا طرز عمل دوسروں سے مختلف ہوتا ہے۔ بعض مالی اعتبار سے بخل کرتے ہیں ، بعض ایسے ہوتے ہیں جو فیاض ہوتے ہیں۔ یہی صورت حالات ابتدائی اسلامی معاشرے کی تھی جس کو روایات میں اچھی طرح قلم بند کیا گیا ہے اور قرآن کریم نے بھی دوسرے مقامات پر تفصیلات دی ہیں۔ اسلام نے اس میدان میں معجزانہ مثالیں پیش کی ہیں۔ لوگوں نے جو دوستی اور جوانمردی میں بےپناہ قربانیاں دیں لیکن ان مثالوں کے باوجود مالی لحاظ سے بخل پایا جاتا ہوگا ، بعض لوگ ایسے بھی ہوں گے جو جان تو دیتے ہوں گے لیکن ان کے لئے مال دینا مشکل ہوگا۔

یہی وہ کنجوسی ہے جس کا علاج قرآن مجید اس آیت میں کر رہا ہے۔

ومن یبخل فانما یبخل عن نفسہ (47 : 38) ” حالانکہ جو بخل کرتا ہے وہ اپنے آپ ہی سے بخل کر رہا ہے “۔ کیونکہ اللہ کی راہ میں جو لوگ خرچ کر رہے ہیں وہ دراصل خود انہی کے بینک میں جمع ہو رہا ہے۔ اور یہ بچت دراصل ان کو اس وقت کام آئے گی جہاں پر کچھ بھی آمدن نہ ہوگی۔ جب ان کو زمین سے اٹھایا جائے گا اور ان کے پاس ان کی مملوکات میں سے کچھ بھی نہ ہوگا۔ لہٰذا وہاں یہی کمائی اور بچت ان کے کام آئے گی۔ اس لیے آج اگر وہ اس مد میں خرچ کرنے سے بخل کرتے ہیں تو یہ بخل وہ خود اپنے خلاف کر رہے ہیں۔ وہ اپنی بچتوں میں کمی کر رہے ہیں اور خود اپنا مال کم کر رہے ہیں اور خود اپنے آپ کو محروم کر رہے ہیں۔

اور اللہ جو ان سے انفاق فی سبیل اللہ کا مطالبہ کرتا ہے تو یہ بھی خود ان کی بھلائی کے لئے ہوتا ہے ۔ یہ انہی کے لئے زیادہ بچت ہوتی ہے انہی کا خزانہ اور ذخیرہ بڑھتا ہے۔ اللہ کو اس مال سے کچھ فائدہ نہیں ہے اور نہ اللہ کو ایسے کسی مال کی ضرورت ہے۔

اس لیے بخل اور کنجوسی کا کوئی جواز نہیں ہے۔ تمہارے پاس جو دولت ہے وہ بھی اسی کی دی ہوئی ہے اور آخرت میں وہ جو اجر دے گا وہ بھی اس کا فضل ہوگا۔ اس لئے تم جو خرچ کرتے ہو وہ بھی اللہ ہی کا فضل ہے۔

اور آخر اور دو ٹوک بات کہ اللہ نے جو تمہیں اپنی دعوت کے لئے چنا ہے۔ یہ اللہ کا بہت بڑا احسان ہے اور تمہارے لیے یہ بہت اعزاز ہے۔ اگر تم نے اپنے آپ کو اس کا اہل نہ بنایا اور اس کی ذمہ داریاں پوری نہ کیں تو اللہ تمہارے انتخاب کو واپس لے لے گا۔ اور کسی دوسری قوم کو اس کام کے لئے منتخب کردے گا۔ اور یہ اس قوم پر اللہ کا احسان ہوگا اور وہ اس انتخاب کی قدر کریں گے !

وان تتولوا یستبدل ۔۔۔۔۔۔ امثالکم (47 : 38) ” اگر تم منہ موڑو گے تو اللہ تمہاری جگہ کسی اور قوم کو لے آئے گا اور وہ تم جیسے نہ ہوں گے “۔ جن لوگوں نے ایمان کا مزہ چکھا ہے ، ان کے لئے تو یہ بہت خوفناک دھمکی ہے کہ تمہیں ہٹا کر کسی دوسری قوم کے لئے آیا جائے گا۔ اس شخص کے لئے یہ بہت بڑی دھمکی ہے جس کو احساس ہو کہ دعوت اسلامی اور خیر امت کی ذمہ داری سپرد کر کے اللہ نے ان کو بہت بڑا اعزاز بخشا ہے کیونکہ جو شخص اللہ کی طرف لوگوں کو بلاتا ہے اسے اللہ نے عظیم امانت سپرد کی ہے۔ وہ اس زمین پر اللہ کی سند اور سہارے سے چلتا ہے۔ اس کے وجود میں اللہ کا نور ہے۔ وہ آتا ہے اور جاتا ہے اور اس پر اپنے آقا کی علامات ہیں۔

اگر کسی نے ایمان کی مٹھاس کو چکھ لیا ہو اور پھر اس سے سلب کرلیا جائے تو یہ خسارہ وہی محسوس کرسکتا ہے ، یہ بےعزتی وہی محسوس کرسکتا ہے جس نے دریار کبریائی میں باریابی پائی ہو ، اعزاز پایا ہو اور پھر اسے دھتکار دیا جائے اور اس کے پیچھے دروازے بند کر دئیے جائیں۔ بلکہ ایسے واصلین حق کی زندگی تو جہنم بن جاتی ہے جو حق تعالیٰ تک پہنچ چکے ہوں اور پھر دور ہوجائیں گے اور ان کے سامنے پردے حائل ہوجائیں۔

حقیقت یہ ہے کہ ایمان ایک بہت بڑی عطا ہے۔ اس کی قیمت کی کوئی چیز اس کائنات میں نہیں ہے۔ اور یہ پوری انسانی زندگی اور پوری زمین کی دولت اس کے مقابلے میں ہیچ ہے جب ترازو کے ایک پلڑے میں ایمان ہو اور دوسرے میں یہ پوری کائنات ہو۔

حقیقت یہ ہے کہ ایمان ایک بہت بڑی عطا ہے۔ اس کی قیمت کی کوئی چیز اس کائنات میں نہیں ہے ۔ اور یہ پوری انسانی زندگی اور پوری زمین کی دولت اس کے مقابلے میں ہیچ ہے جب ترازو کے ایک پلڑے میں ایمان ہو اور دوسرے میں یہ پوری کائنات ہو۔

اس لیے یہ دھمکی اتنی بڑی دھمکی ہے جو مومن کو دی جاسکتی ہے اور یہ دھمکی ، ذرا غور کیجئے ، اللہ کی طرف سے ہے !