ومن احسن قولا ممن دعا الى الله وعمل صالحا وقال انني من المسلمين ٣٣
وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًۭا مِّمَّن دَعَآ إِلَى ٱللَّهِ وَعَمِلَ صَـٰلِحًۭا وَقَالَ إِنَّنِى مِنَ ٱلْمُسْلِمِينَ ٣٣
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
٣

آیت 33{ وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَآ اِلَی اللّٰہِ } ”اور اس شخص سے بہتر بات اور کس کی ہوگی جو بلائے اللہ کی طرف“ جس خوش قسمت شخص کو ایمان کے بعد ”استقامت“ کا مقام حاصل ہوچکا ہو ‘ اسے بھلا اب کس بات کی دھن ہوگی ؟ کیا وہ اب بھی مال و دولت ِدنیا کے پیچھے دوڑے گا ؟ یا کیا حکومت اور اقتدار کے حصول کی خواہش اب بھی اس کے دامن دل کو اپنی طرف کھینچے گی ؟ نہیں ! ہرگز نہیں ! اس ”متاعِ غرور“ کو تو وہ ٹھکرا کر بہت آگے نکل آیا ہے۔ مسند ِاستقامت پر رونق افروز ہونے کے بعد دنیا ومافیہا کے بارے میں اس کی ترجیحات بہت واضح ہوچکی ہیں۔ اب تو وہ خوب سمجھتا ہے کہ یہ سب آنی جانی چیزیں ہیں ‘ آج ہیں تو کل نہیں ہیں۔ اسے اچھی طرح معلوم ہے کہ دنیا اور اس کے لوازمات کی بہتات سے مسئولیت بڑھتی ہے اور حساب آخرت مشکل ہوجاتا ہے۔ چناچہ اب اس کے دل میں ایک ہی تڑپ ہے اور وہ ہے دعوت الی اللہ کی تڑپ۔ اب اس کی دوڑ دھوپ اور جدوجہد کا اگر کوئی ہدف ہے تو بس یہی کہ میں زیادہ سے زیادہ انسانوں کو راہ ہدایت پر لے آئوں۔ { وَعَمِلَ صَالِحًا وَّقَالَ اِنَّنِیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ } ”اور وہ نیک عمل کرے اور کہے کہ میں مسلمانوں میں سے ہوں۔“ اعمالِ صالحہ کا مفہوم ”استقامت“ کے اندر بھی پوشیدہ ہے ‘ لیکن یہاں پر اس کا علیحدہ ذکر بھی آگیا ہے ‘ اس لیے کہ دعوت الی اللہ اور عمل صالح لازم و ملزوم ہیں۔ اگر ایک داعی کا اپنا عمل درست نہیں ہوگا تو نہ صرف یہ کہ اس کی دعوت موثر نہیں رہے گی بلکہ وہ دعوت کی بدنامی کا باعث بھی بنے گا۔