undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
٣

آیت 30 { اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا } ”بیشک وہ لوگ جنہوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے“ اللہ پر ایمان لانا آسان ہے مگر اس پر جمے رہنا آسان نہیں ہے۔ یہ تبھی ممکن ہے جب انسان کو اللہ پر پوری طرح توکل ّہو ‘ وہ ہر حالت میں اس کی رضا پر راضی رہے۔ نہ اپنی کسی حالت کے بارے میں اس کی زبان پر حرف شکایت آئے اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کے کسی فیصلے پر اس کے دل میں ملال پیدا ہو۔ پھر اللہ تعالیٰ کے ہر حکم کے آگے اس کا سر تسلیم بلا حیل و حجت جھکتا چلا جائے اور وہ اپنے تن من دھن کو ہتھیلی پر رکھے ‘ اس کے درِ اطاعت پر ہمہ وقت کمر بستہ کھڑے رہ کر عملی طور پر ثابت کر دے کہ : { اِنَّ صَلاَتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔ الانعام ”یقینا میری نماز ‘ میری قربانی ‘ میری زندگی اور میری موت اللہ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے“۔ اس استقامت کی اہمیت ایک حدیث سے بہت اچھی طرح واضح ہوتی ہے۔ حضرت سفیان بن عبداللہ رض سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا : ”یارسول اللہ ! مجھے اسلام کے بارے میں ایسی بات بتادیں کہ آپ ﷺ کے سوا کسی اور سے کچھ دریافت کرنے کی ضرورت نہ رہے۔“ یعنی مجھے اسلام کی حقیقت ایک جملے میں بتا دیجیے تاکہ میں اسے گرہ میں باندھ لوں۔ جواب میں آپ ﷺ نے فرمایا : قُلْ آمَنْتُ بِاللّٰہِ ثُمَّ اسْتَقِمْ 1 ”کہو میں اللہ پر ایمان لایا اور پھر اس پر جم جائو !“ اگر واقعی کوئی شخص غور کرے تو اس استقامت میں اسے قیامت مضمر دکھائی دے گی۔ واضح رہے کہ استقامت اور قیامت کا سہ حرفی مادہ ایک ہی ہے۔ یہ قیامت ہی تو ہے کہ ایک بندہ اللہ تعالیٰ کو نظریاتی طور پر اپنا رب مان لینے کے بعد عملی طور پر ساری دنیا سے بےنیاز ہوجائے اور اپنے ایک ایک عمل سے ثابت کردے کہ میرا پروردگار ‘ میرا حاجت روا ‘ میرا سہارا ‘ میرا مشکل کشا ‘ میرے نفع و نقصان کا مالک صرف اور صرف اللہ ہے۔ دل کا یہ یقین اور عمل کا یہ رنگ گویا چوٹی ہے اس ایمان اور عمل صالح کی جس کا ذکر سورة العصر میں نجاتِ اُخروی کی پہلی دو شرائط کے طور پر اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ کے الفاظ میں ہوا ہے۔ اب اگلی آیت میں ان خوش قسمت لوگوں کا اللہ کے ہاں مقام ملاحظہ کیجیے جو اپنی دنیوی زندگی میں ایمان و عمل کی اس چوٹی یعنی استقامت تک پہنچنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں : { تَتَنَزَّلُ عَلَیْہِمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ اَلَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّۃِ الَّتِیْ کُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ } ”ان پر فرشتوں کا نزول ہوتا ہے کہ آپ لوگ ڈرو نہیں اور غمگین نہ ہو اور خوشیاں منائو اس جنت کی جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا رہا ہے۔“ فرشتوں کا نزول ان لوگوں پر کب ہوتا ہے ؟ اس حوالے سے یہ امر تو متفق علیہ ہے کہ موت کے قریب ایسے لوگوں کو خوش آمدید کہنے اور بشارت دینے کے لیے فرشتے نازل ہوتے ہیں ‘ لیکن دنیوی زندگی کے دوران بھی اہل ایمان کی مدد کے لیے فرشتوں کا آنا ثابت ہے۔ جیسے میدانِ بدر میں اہل ِایمان مجاہدین کی مدد کے لیے فرشتے نازل ہوئے : { اِذْ یُوْحِیْ رَبُّکَ اِلَی الْمَلٰٓئِکَۃِ اَنِّیْ مَعَکُمْ فَثَبِّتُوا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْاط } الانفال : 12 ”یاد کریں جب آپ ﷺ کا ربّ وحی کر رہا تھا فرشتوں کو کہ میں تمہارے ساتھ ہوں ‘ تو تم جائو اور اہل ایمان کو ثابت قدم رکھو“۔ چناچہ مومنین صادقین پر ملائکہ کا نزول اثنائے حیات میں بھی ہوتا ہے۔