قل اللهم مالك الملك توتي الملك من تشاء وتنزع الملك ممن تشاء وتعز من تشاء وتذل من تشاء بيدك الخير انك على كل شيء قدير ٢٦
قُلِ ٱللَّهُمَّ مَـٰلِكَ ٱلْمُلْكِ تُؤْتِى ٱلْمُلْكَ مَن تَشَآءُ وَتَنزِعُ ٱلْمُلْكَ مِمَّن تَشَآءُ وَتُعِزُّ مَن تَشَآءُ وَتُذِلُّ مَن تَشَآءُ ۖ بِيَدِكَ ٱلْخَيْرُ ۖ إِنَّكَ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍۢ قَدِيرٌۭ ٢٦
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
٣

اس کے بعد ہر مومن اور خود رسول اللہ ﷺ کو ہدایت دی جاتی ہے کہ وہ اللہ کی طرف متوجہ ہوں ‘ اللہ کو اپنی الوہیت میں ایک سمجھتے ہوئے ‘ اسے اس جہاں کا واحد نگہبان سمجھتے ہوئے ‘ خود بشر کی زندگی میں بھی اور اس کائنات کی تدبیر میں بھی کیونکہ یہ دونوں پہلو اللہ کی خدائی اور اس کی حاکمیت کے مظاہر ہیں اور ان میں اس کا کوئی شریک نہیں ہے ۔ نہ اس کا کوئی مثیل اور شبیہ ہے ۔

یہ نہایت ہی دھیمی اور پر مشیئت آواز ہے ۔ اس کی لفظی ترکیب دعائیہ ہے ۔ لیکن اس کی روح میں گیری معنویت اور خشوع و خضوع ہے ۔ اس میں اس ………کھلی کائنات کی کھلی کتاب پر نظر التفات ڈالی گئی ہے ۔ بڑی نرمی اور بڑی محبت کے ساتھ انسان کے شعور میں ابال آتا ہے اس کو بتایا گیا ہے کہ وہ باری مدبر کائنات ہے اور ساتھ ہی انسانی امور کا بھی مدبر ہے۔ اس کی ہمہ گیر تدبیر کو یکجا کرکے ایک عظیم حقیقت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ وہ عظیم سچائی یہ ہے کہ اس کائنات کا الٰہ اور نگہبان اور اس کے اندر اس انسان کا الٰہ ونگہبان ایک ہی ہیں ۔ یہ انسان اس کائنات کا ایک حصہ ہے ۔ وہ اس سے علیحدہ کوئی حقیقت نہیں ہے ۔ اور دونوں میں اصل متصرف اللہ ہے ۔ صرف اللہ کے نظام زندگی سے اس کائنات کی شان ہے ۔ انسان کا فریضہ بھی یہی ہے ۔ اور جس طرح یہ کائنات اللہ کے دین سے خارج نہیں ہوسکتی ۔ اسی طرح انسان کے لئے بھی دین الٰہی سے خارج ایک قسم کا انحراف ہے ‘ حماقت ہے اور فساد ہے ۔ اللہ فرماتے ہیں :

قُلِ اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَاءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاءُ وَتُعِزُّ مَنْ تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاءُ

” کہو اے ملک کے مالک ! تو جسے چاہے حکومت دے اور جس سے چاہے ‘ چھین لے ‘ جس کو چاہے عزت دے اور جس کو چاہے ذلیل کردے۔ “

یہ وہ حقیقت ہے ‘ جو عقیدہ وحدالوہیت کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے۔ ایک خدا کا مفہوم یہ ہے کہ وہی ایک مالک ہے ۔ وہ مالک الملک ہے ۔ اس کے ساتھ اس میں کوئی شریک نہیں ہے ۔ اس کے بعد وہ اپنی جانب جو کچھ چاہتا ہے اور جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے اور اس کی یہ عطا عاریتاً ہوتی ہے جب چاہتا ہے اور جس سے چاہتا ہے اپنا ملک واپس لے لیتا ہے۔ اس لئے یہاں کوئی کسی چیز کا بھی اصلی مالک نہیں ہے کہ اپنی ذاتی خواہش کے مطابق اس میں تصرف کرے ۔ انسانوں کی ملکیت عارضی ہے ۔ عطائی ہے ۔ اور یہ ان شرائط وقیود کے تحت ہے جن کے تحت عطا کنندہ نے عطا کی ہے ۔ اس کی تعلیمات کے تحت حکومت اور ملکیت میں تصرف ہوگا۔ اگر عطا کنندہ کے شرائط کے خلاف کیا گیا تو وہ باطل ہوگا۔ اس دنیا میں مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ اس قسم کے ہر تصرف کو مسترد کردیں اور آخرت میں خود اللہ تعالیٰ ایسے شخص سے حساب و کتاب لیں گے ۔

نیز یہ اس کے اختیار میں ہے کہ وہ جسے چاہے عزت بخشے اور جسے چاہے ذلیل کردے۔ اس کے حکم اور ارادہ کی راہ میں کوئی رکاوٹ ڈالنے والا نہیں ہے ۔ اس پر کسی کا کوئی جبر نہیں اور اس کے فیصلوں کو کوئی رد کرنے والا بھی نہیں ہے ۔ وہ صاحب الامر ہے ۔ تمام امور اس کے ہاتھ میں ہیں ۔ وہی اللہ ہے اور شرک سے پاک ‘ اور اس کے اس اختصاص اور اس کبریائی میں اس کا کوئی شریک نہیں ہے ۔

اللہ تعالیٰ کی اس نگہبانی میں سب کا بھلا ہے ۔ وہ اس کائنات اور انسان کی نگہبانی انتہائی عدل کے اصولوں پر کرتا ہے ۔ جسے چاہتا ہے مملکت اور سلطنت دیتا ہے ۔ اور جس سے چاہتا ہے لے لیتا ہے ۔ اور یہ سب کچھ انصاف وعدل کے ساتھ ۔ جسے چاہتا ہے معزز بنا دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ذلیل کردیتا ہے اور یہ سب کچھ عدل کے ساتھ ۔ وہ ہر حالت میں خیر ہی خیر ہے ۔” اس کے ہاتھ میں بھلائی ہے ۔ “” وہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔ “