فبما رحمة من الله لنت لهم ولو كنت فظا غليظ القلب لانفضوا من حولك فاعف عنهم واستغفر لهم وشاورهم في الامر فاذا عزمت فتوكل على الله ان الله يحب المتوكلين ١٥٩
فَبِمَا رَحْمَةٍۢ مِّنَ ٱللَّهِ لِنتَ لَهُمْ ۖ وَلَوْ كُنتَ فَظًّا غَلِيظَ ٱلْقَلْبِ لَٱنفَضُّوا۟ مِنْ حَوْلِكَ ۖ فَٱعْفُ عَنْهُمْ وَٱسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِى ٱلْأَمْرِ ۖ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى ٱللَّهِ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ يُحِبُّ ٱلْمُتَوَكِّلِينَ ١٥٩
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
٣

اس پیراگراف کا موضوع اور محور حقیقت نبوت اور ذات نبوی ہے ۔ اور اس محور کے متعلقہ حقائق کو اس میں لیا گیا ہے ۔ اس میں نظر آتا ہے کہ بڑے بڑے اصول چھوٹی چھوٹی عبارتوں میں بیان کئے گئے ہیں ۔ اللہ کی رحمت کو مجسم کرکے نبی ﷺ کے اخلاق اور طرز عمل کی صورت میں پیش کیا گیا ہے ۔ آپ کی ذات کریمہ نہایت ہی مہربان ‘ نہایت ہی رحم دل ‘ نہایت ہی نرم اور نہایت ہی سہل شکل میں پیش کی گئی ہے ۔ نظر آتا ہے کہ لوگ پروانوں کی طرح ان کے اردگرد جمع ہوتے ہیں ۔ آپ کے اردگرد ہر وقت ایک بڑی تعداد جمع رہتی ہے ۔ پھر اس محفل میں صاف صاف نظر آتا ہے کہ اس جماعت کا قیام جس کے نظام کے تحت ہے وہ اصول شوریٰ پر قائم ہے ۔

حکم دیا جاتا ہے کہ یہ جماعت باہم مشورہ کرکے فیصلے کرے ‘ اگرچہ اس مشورے کے تحت ہونے والے فیصلوں کے نتائج تلخ ہوں۔ پھر شوریٰ کے اصول کے ساتھ ساتھ یہ بھی نظر آتا ہے کہ دانشمندی اور شوریٰ کے ذریعے فیصلے کئے جائیں اور پھر ان پر عمل کیا جائے ۔ اور یہ عمل فیصلہ کن ہو ۔ اور شوریٰ اور عزم کے بعد پھر توکل کرکے کام کیا جائے ۔ جب منصوبہ تیارہوجائے ‘ اس پر شوریٰ ہوجائے اور پھر اس فیصلہ کن عمل اور اس کا اجراء (Execution) شروع ہوجائے اور اس کے لئے ہر قسم کا انتظام ہوجائے ‘ تو پھر توکل علی اللہ کا مرحلہ آتا ہے اور پھر قدرت الٰہیہ اپنا کام شروع کردیتی ہے ۔ پھر مسلمان اپنا کام اللہ کے سپرد کردیتے ہیں ۔ اس لئے کہ تمام امور میں حقیقی فاعل اور حقیقی متصرف تو صرف اللہ کی ذات ہے ۔ حقیقی تصرف اس کے سوا کوئی اور نہیں کرسکتا ۔ تمام نتائج اس کے ہاتھ میں ہیں ۔ ان امور کے ساتھ ساتھ پھر یہ حکم بھی دیا جاتا ہے کہ مال غنیمت میں خیانت بہت ہی بڑا جرم ہے ۔ اس سے طمع اور لالچ کا اظہار ہوتا ہے۔ جماعت کے اندر افراتفری پیدا ہوتی ہے ۔ اس پیراگراف میں بتایا جاتا ہے جو شخص اللہ کی رضامندی کے لئے کام کرتا ہے اور جو اللہ کی نافرمانی اور غضب کی راہ پر ہے ان دونوں میں بڑا فرق و امتیاز ہے ۔ دونوں کی اقدار اور ترجیحات میں فرق ہوتا ہے ۔ دونوں کے پیمانہ نفع ونقصان میں فرق ہوتا ہے ۔ آخر میں اہل اسلام اور اہل دنیا کو یہ بتایا جاتا ہے کہ نبی ﷺ کی رسالت تمہارے لئے بڑی نعمت ہے اور تم پر ایک عظیم احسان ہے اور معمولی اموال غنیمت جس کے لئے تم دوڑتے ہو اس قیمتی اثاثہ کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہے ۔ نیز اس عظیم خزانے کے حصول کے لئے وہ مصائب کچھ نہیں جو تم پر آئے ہیں ۔ یہ عظیم دولت تو عظیم قربانی کا تقاضا کرتی ہے ۔

ہدایات ومعانی کی یہ فوج ہے جو چند فقروں اور آیات میں دریا کو کوزے میں بند کرکے پیش کردی گئی ہے ۔

فَبِمَا رَحْمَةٍ مِنَ اللَّهِ لِنْتَ لَهُمْ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِي الأمْرِ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِينَ

” اے پیغمبر یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ تم ان لوگوں کے لئے بڑے نرم مزاج واقعہ ہوئے ہو۔ ورنہ اگر کہیں تم تند خو اور سنگدل ہوتے تو یہ سب تمہارے گردوپیش سے چھٹ جاتے ۔ ان کے قصور معاف کردو ‘ ان کے حق میں دعائے مغفرت کرو۔ اور اہم امور میں ان سے مشورہ کیا کرو ۔ پھر جب تمہارا عزم کسی رائے پر مستحکم ہوجائے تو اللہ پر بھروسہ کرو ‘ اللہ کو وہ لوگ پسند ہیں جو اسی کے بھروسے پر کام کرتے ہیں۔ “

یہاں روئے سخن رسول اللہ ﷺ کی طرف ہے ۔ لیکن یہ بات رسول کی قوم کی کچھ کمزوریوں کو سامنے رکھ کر کی جارہی ہے کہ پہلے وہ مدینہ سے باہر نکلنے میں بڑے پرجوش تھے ۔ اس کے بعد ان کی صفوں میں انتشار پیدا ہوگیا ۔ پورے لشکر کا ایک تہائی حصہ تو جنگ سے پہلے ہی واپس ہوگیا۔ اس کے بعد تیراندازوں نے رسول ﷺ کے حکم کی مخالفت کی ۔ انہوں نے مال غنیمت دیکھ کر کمزوری کا مظاہرہ کیا ۔ پھر جب رسول ﷺ کے قتل کی جھوٹی خبر عام ہوگئی تو یہ لوگ کمزور پڑگئے اور الٹے پاؤں پھرگئے ۔ اور ہزیمت قبول کرلی ۔ رسول ﷺ ایک قلیل تعداد کے ساتھ جم گئے ‘ زخم پر زخم آتے رہے اور ساتھی چھوڑگئے ۔ پھر آپ نیچے سے پکارتے ہیں لیکن وہ بھاگے چلے جارہے تھے اور کسی کی طرف ان کی توجہ ہی نہ ہورہی تھی ۔ اس صورت حال میں روئے سخن آپ ﷺ کی طرف ہوتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کو تسلی دیتا ہے اور مسلمانوں کو یہ شعور واحساس دیا جاتا ہے کہ ان پر اللہ کا کس قدر عظیم انعام ہے ۔ رسول ﷺ اور مسلمانوں دونوں کو اس طرف متوجہ کیا جاتا ہے ۔ یہ مجسم خلق کریم اللہ کی ایک عظیم نعمت ہے کہ وہ اس کے محور کے اردگرد جمع ہورہے ہیں ۔ اس طرح رسول ﷺ کے دل میں پوشیدہ جذبات رحمت کو جوش میں لایا جاتا ہے اور آپ صبر کرکے ان کی وہ تمام لغزشیں معاف فرماتے ہیں اور دوسری طرف ان کو یہ احساس ہوجاتا ہے کہ اس رؤف رحیم نبی کی صورت میں ان پر کس قدر انعام ہوا ہے ۔ اور رسول ﷺ کو حکم دیا جاتا ہے کہ وہ بھی ان کے لئے عفو و درگزر کا سوال کریں ۔ اور یہ کہ حسب سابق ان کے ساتھ مشورہ کرتے رہیں اور یہ نہ ہو کہ احد میں مشورے کے نتیجے میں جو معرکہ ہوا اور اس میں جو نامطلوب نتائج نکلے ‘ اس کی وجہ سے باہم شوریٰ جیسے اہم کام کو بند کردیں۔

فَبِمَا رَحْمَةٍ مِنَ اللَّهِ لِنْتَ لَهُمْ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ……………” اے پیغمبر یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ تم ان لوگوں کے لئے بہت نرم مزاج واقعہ ہوئے ہو۔ ورنہ اگر تم تنگ خو اور سنگدل ہوتے تو یہ سب تمہارے گردوپیش سے چھٹ جاتے ۔ “

یہ اللہ کی رحمت تھی جو رسول ﷺ کے بھی شامل حال تھی اور آپ کو ان کے لئے رحیم وشفیق اور نرم خو بنادیا اور خود ان کے لئے بھی رحمت تھی کہ آپ نے بوجہ نرمی مزاج ان سے باز پرس نہ کی ۔ اگر آپ سنگ دل ہوتے ‘ تنگ مزاج ہوتے تو یہ جمعیت منتشر ہوجاتی ‘ لوگوں کے خیالات آپ کے ساتھ ہم آہنگ نہ ہوتے ۔ عوام الناس کو تو ایک پر شفقت بارگاہ درکار ہوتی ہے ‘ جہاں ان کے ساتھ نہایت رعایتی برتاؤ کیا جاتا ہو ‘ جہاں خندہ پیشانی سے ان کا استقبال کیا جاتا ہو ‘ جہاں سے انہیں محبت ملتی ہو ‘ جہاں ان کی غلطیوں ‘ کمزوریوں اور نقائص سے درگزر کیا جاتا ہو ۔ جہاں قائد اتنے بڑے دل کا مالک ہو کہ وہ انہیں سب کچھ دے رہا ہو ‘ لیکن ان سے کچھ نہ لے رہا ہو ‘ جہاں قائد اپنے پیروکاروں کی مشکلات اپنے سر لیتا ہو لیکن ان پر زیادہ بوجھ نہ ڈالتاہو ‘ اور جہاں پیروکاروں کو ہمیشہ رعایت ‘ اہمیت ‘ خندہ پیشانی ‘ نرمی اور محبت اور رضامندی ملتی ہو اور رسول اکرم کا دل ایسا ہی دل تھا اور آپ کا برتاؤ لوگوں کے ساتھ بعینہ ایسا تھا۔ کبھی وہ اپنی ذات کے حوالے سے کسی پہ غصہ نہیں ہوئے ‘ کبھی بھی انسانی کمزوری کی وجہ سے آپ نے تنگ دلی کا مظاہرہ نہیں کیا ۔ کبھی آپ نے اس دنیا کے مفادات میں سے کسی مفاد کو ‘ اپنی ذات کے لئے مخصوص نہیں کیا ۔ بلکہ آپ کو جو کچھ بھی ملا آپ نے کھلے ہاتھوں سب کچھ ان پر تقسیم کردیا ۔ غرض آپ کے صبر ‘ حلم ‘ ہمدردی ‘ محبت اور شرافت نے ہمیشہ انہیں ڈھانپے رکھا ۔ اور ان میں سے جس نے بھی رسول ﷺ کے ساتھ یکجا زندگی کے کچھ ایام بسرکئے یا آپ کو محض ایک نظر ہی دیکھ لیا وہ آپ ﷺ کا گرویدہ ہوگیا۔ اس لئے ذات باری نے آپ کو ایک عظیم اور رحیم وکریم شخصیت عطافرمائی تھی ۔ اور یہ سب کچھ آپ ﷺ پر بھی اللہ کی رحمت تھی اور دوسرے پہلو سے آپ کی امت پر بھی کرم تھا۔

اس کرم کو یاد دلاکر اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کو وہ اصولی بات بتاتے ہیں جس پر آئندہ جماعت مسلمہ کی تنظیم ہونا مطلوب تھی وہ یہ کہفَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِي الأمْرِ……………” اور ان کے ساتھ الامر میں مشورہ کرو۔ “ یہ ایک قطعی نص ہے اور تاکیدی ہے ۔” ان کے ساتھ الامر میں مشورہ کرو۔ “ اسلام یہ اصول نظام حکومت میں لازم قرار دیتا ہے ۔ اگرچہ اس نظام حکومت میں ہیڈآف اسٹیٹ محمد ﷺ ہوں۔ یہ قطعی نص اس بارے میں شک کی کوئی گنجائش ہی نہیں چھوڑتی کہ اسلامی نظام مملکت میں شوریٰ ایک اساسی اصول (Principle) ہے۔ اس کے سوا اسلام کا نظام مملکت قائم ہی نہیں ہوسکتا۔ رہی یہ کہ شوریٰ کی شکل و صورت کیا ہو ‘ شوریٰ کا مقصد کس طرح حاصل کیا جائے ‘ تو یہ ایسے امور ہیں جن کی صورت اور شکل مختلف ہوسکتی ہے۔ ہر علاقے کے حالات کے مطابق مختلف شکل و صورت میں شوریٰ قائم کی جاسکتی ہے ۔ ہر وہ شکل و صورت جس کے ذریعہ شوریٰ کے مقاصد پورے ہوسکیں ۔ یہ نہ ہو کہ محض ایک دکھاوا ہو ۔ جس صورت اور جس شکل میں صحیح اغراض پورے ہوں وہی اسلامی ہوگی۔

یہ بات نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ جب یہ آیت اتری تھی تو اس سے پہلے مجلس شوریٰ کا انعقاد ہوگیا تھا اور شوریٰ کی اکثریت کے فیصلے کو تسلیم کرتے ہوئے احد کی جنگ لڑی گئی اور جس کے تلخ نتائج برآمد ہوئے ۔ اس شوریٰ کے انعقاد کی وجہ سے پہلا نقصان تو یہ ہوا کہ اسلامی صفوں میں اختلاف پیدا ہوگیا ‘ آراء مختلف ہوئیں۔ بعض لوگوں کا خیال تھا کہ مسلمان مدینہ میں پناہ لیتے ہوئے لڑیں ۔ جب دشمن حملہ کرے تو تنگ گلیوں کے اندر اسے آلیاجائے لیکن اس کے مقابلے میں ایک پرجوش گروہ کی رائے یہ تھی کہ مدینہ سے باہر نکل کر میدان میں معرکہ آرائی کی جائے ۔ ان اختلافی آراء ہی کی وجہ سے لشکر اسلام میں تفرقہ ہوگیا اور عبداللہ بن ابی بن السلول کو موقع مل گیا کہ وہ ایک تہائی لشکر کو لے کر واپس ہوجائے ۔ یہ اس وقت ہوا جب دشمن دروازے پر کھڑا تھا۔ یہ ایک بڑا حادثہ تھا ‘ اور اسلامی صفوں میں بظاہر بڑی دراڑ تھی ۔ پھر اس شوریٰ کے نتیجے میں جو فوجی منصوبہ تیار ہوا ‘ وہ عملاً ظاہر ہوگیا کہ وہ کوئی محفوظ جنگی اسکیم نہ تھی ۔ خود جنگی نقطہ نظر سے ۔ اس لئے کہ مدینہ کی دفاعی تاریخ سے یہ منصوبہ مختلف تھا جیسا کہ عبداللہ ابن ابی ابن السلول نے اس مجلس میں اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے یہ تاریخی حقیقت بتائی تھی کہ وہ جب بھی مدینہ کے اندر لڑے ہیں کامیاب رہے ہیں اور غزوہ احزاب میں خود مسلمانوں نے بھی جنگ احد کی اسکیم کی تصحیح کرتے ہوئے مدینہ کے اندر لڑنے کا فیصلہ کیا اور وہ کامیاب بھی رہے ۔ انہوں نے خندق کھودی ۔ دشمن کے مقابلے میں باہر نہ نکلے ۔ اس لئے کہ جنگ احد میں انہوں نے جو تجربہ حاصل کیا تھا اس کا یہی تقاضا تھا۔

خود رسول اللہ ﷺ کو بھی اس بات کا احساس تھا کہ مدینہ سے باہر نکل کر لڑنے کے نتائج خطرناک ہوں گے ۔ آپ کے پاس رویائے صادقہ کے ذریعے بھی کچھ اشارات آچکے تھے ۔ آپ کو اچھی طرح معلوم تھا کہ آپ کے خواب بالکل سچے ہوتے ہیں ۔ آپ نے اس کی یہ تاویل پہلے سے کردی تھی کہ آپ کے خاندان میں سے کوئی شہید ہونے والا ہے اور آپ کے ساتھی بھی شہادت پانے والے ہیں ۔ نیز آپ کے خوابوں کی تعبیر کرتے ہوئے مدینہ کو محفوظ ڈھال قرار دیا تھا۔ ان حالات میں آپ کو یہ حق حاصل تھا کہ آپ مجلس شوریٰ کے فیصلے کو ویٹو کردیتے لیکن آپ نے بادل ناخواستہ اس فیصلے کو نافذ (Execute) کیا۔ حالانکہ اس کے پیچھے جو مشکلات جو قربانیاں اور جو نقصانات پوشیدہ تھے ‘ انہیں آپ کی پیغمبرانہ بصیرت دیکھ رہی تھی ۔ اس لئے کہ اصول شوریٰ کی بنیاد رکھی جارہی تھی ‘ جماعت کو تعلیم دی جارہی تھی ‘ اور یہ امور ان وقتی خساروں سے زیادہ اہم تھے ۔

حق تو یہ تھا کہ کم ازکم معرکہ احد کے بعد اصول شوریٰ کو ترک کردیا جاتا ۔ کیونکہ اس شوریٰ کی وجہ سے اختلاف ہوئے ‘ اسلامی صفوں میں انتشارپیدا ہوا۔ اور یہ انتشار مشکل حالات میں ہوا۔ اور معرکے کے بعد خوفناک نتائج سامنے آگئے ۔ لیکن اسلام نے ایک امت کو برپا کرنا تھا ‘ اس کی تربیت کرنی تھی ‘ اسے پوری انسانیت کی قیادت کے لئے تیار کرنا تھا ‘ اور اللہ تعالیٰ یہ اچھی طرح جانتے تھے کہ کسی قوم کی بہترین تربیت اور اس کو ایک ہدایت یافتہ بنانے کے لئے صرف اصول شوریٰ پر تیار کیا جاسکتا ہے۔ اور یہ کہ اسے شوریٰ کے نتائج برداشت کرنے کے لئے بھی تیار کرنا تھا۔ اس سے غلطیاں سرزد کرانی تھیں ‘ چاہے وہ جس قدر عظیم ہوں تاکہ آئندہ وہ اپنے تجربات کی روشنی میں آگے بڑھے ‘ چاہے یہ نتائج کتنے ہی تلخ ہوں ‘ وہ اپنی تصحیح کرسکے ۔ اور اپنی آراء کے نتائج ‘ اچھے یابرے بھگت سکے ۔ اس لئے کہ جب تک اس سے غلطی سرزد نہ ہوگی ‘ وہ درستی کر ہی نہیں سکتی ۔ اگر کسی نقصان کے نتیجے میں ایک ایسی امت وجود میں آتی ہے ‘ جو تجربہ کار ‘ فہیم اور نتائج کو برداشت کرنے والی ہو تو ان نقصانات کی کوئی اہمیت نہیں رہتی ۔ اور اگر کسی قوم کے نقصانات غلطیوں اور لغزشوں کو محدود کردیا جائے لیکن اسے تجربات سے بھی محروم کردیاجائے تو یہ امت اسی طرح ناتجربہ کار رہے گی جس طرح بچہ ناتجربہ کار رہتا ہے۔ وہ ایک ایک قدم پر نگران کے تحت ہوتا ہے ۔ اس حالت میں بچے کی طرح اس قوم کو مادی نقصانات سے بچایا جاسکتا ہے لیکن اور مادی مفادات بھی اسے دستیاب نہیں ہوسکتے ‘ نفسیاتی لحاظ سے اس قوم کو خسارہ ہوتا ہے ‘ اس کے باوجود کی تکمیل نہیں ہوتی ۔ اس کی تربیت ناقص ہوتی ہے اور عملی زندگی کا اسے کوئی تجربہ نہیں ہوتا۔ اور اس کی مثال اس بچے کی سی ہوتی ہے جسے کوئی چیز ہاتھ میں نہیں دی جاتی۔

اسلام کی پالیسی یہ تھی کہ وہ ایک ایسی قوم تیار کرے جو ایک تجربہ کار قوم ہو۔ اور اس کا منصوبہ یہ تھا کہ اسے بشریت کی ہدایت یافتہ قیادت کے لئے تیار کیا جائے ۔ اس لئے یہ ضروری تھا کہ یہ امت ایک بالغ امت ہو اور اس کی عملی زندگی میں اسے گرنے پڑنے سے بچانے کے لئے کوئی مددگار نہ دیا جائے تاکہ وہ تجربہ کار ہو۔ اور یہ تجربہ اسے رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں حاصل ہو۔ اور آپ کی نگرانی میں ہو۔ اگر ایک بالغ النظر قیادت کی وجہ سے یہ مناسب ہوتاق کہ اب شوریٰ کی ضرورت نہیں ہے ‘ اور امت کی تربیت ضروری نہ ہوتی اور خطرناک واقعات میں اس کے ساتھ مشورے اور اس کی آراء پر چلنے کی ضرورت نہ ہوتی مثلاً معرکہ احد جیسے مراحل میں ‘ کیونکہ یہ ایک فیصلہ کن مرحلہ تھا ‘ اس وقت امت مسلمہ ایک نوخیز امت تھی ‘ ہر طرف سے خطرات میں گھری ہوئی تھی ‘ دشمن چار سوگھات میں تھے ۔ اس لئے ایسے حالات میں اگر مناسب ہوتا کہ بالغ نظر قیادت سب فیصلے خود کرتی اور اسے حق بھی تھا اور ایسے حالات میں شوریٰ کی ضرورت نہ ہوتی کیونکہ حالات خطرناک تھے ‘ اور پھر اس وقت حضرت محمد ﷺ بھی موجود تھے اور وحی بھی آرہی تھی تو ایسے حالات میں امت کو حق شوریٰ سے محروم کیا جاسکتا تھا ۔ اور خصوصاً ان حالات میں جبکہ احد میں تمام ترتلخ واقعات شوریٰ ہی کی وجہ سے ظاہر ہوئے ‘ حالانکہ اس وقت یہ امت نہایت ہی خطرناک اور ہنگامی حالات سے گزررہی تھی لیکن رسول ﷺ کے وجود مبارک کے باوجود ‘ وحی الٰہی کے آنے اور آتے رہنے کے باوجود ‘ اور اس قسم کے تلخ نتائج شوریٰ ظہور پذیر ہونے کے باوجود اور خطرناک اور ہنگامی حالات موجودہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ نے حق شوریٰ کو ختم نہ فرمایا۔ چاہے جس قدر نقصان ہوجائے ‘ چاہے اسلامی افواج میں جس قدر اختلاف وافتراق پیدا ہوجائے ‘ چاہے اس کے جس قدر تلخ نتائج ظہور پذیر کیوں نہ ہوں ‘ چاہے مدینہ کے اردگرد کے حالات اس نوخیز امت کے لئے بہت خطرناک اور ہنگامی کیوں نہ ہوں ۔ اس لئے کہ یہ تمام امور ایک بالغ اور تجربہ کار امت کے بروئے کار لانے کے مقصد عظیم کے مقابلے میں ضروری واقعات ہیں ۔ مقصد یہ تھا کہ عملاً امت تجربہ کار ہو ‘ اچھی یا غلط رائے کے نتائج ہضم کرنے کے اہل ہو ۔ کسی رائے اور عمل کے نتائج کا ادراک کرسکتی ہو۔ یہی وجہ ہے اور یہی وجوہات ہیں کہ ایسے حالات میں یہ آیت نازل ہوئی : فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِي الأمْرِ……………” ان کے قصور معاف کردو ‘ ان کے حق میں دعائے مغفرت کرو ‘ ان کو شریک مشورہ رکھو۔ “

فیصلہ یہ کیا گیا کہ خطرناک ترین حالات میں بھی اس اصول ‘ اصول مشورہ کا بحال رکھنا ضروری ہے ۔ اور احد جیسے حالات میں اور ان کے بعد جیسے حالات میں بھی اس پر عمل ضروری ہوگا۔ اور مقصود یہ تھا کہ آئندہ کے لئے کوئی بہانہ نہ بنائے کہ چونکہ مشورہ کے بعد بعض برے نتائج ظاہر ہوسکتے ہیں اس لئے ہم اس اصول کو ساقط کرتے ہیں ۔ مثلاً احد کے حالات اس کی بہترین مثال ہیں ۔ کہ دشمن دروازے پر دستک دے رہا تھا لیکن مشورہ بھی جاری تھا۔ اس لئے ایک بالغ النظر امت تب ہی پیدا ہوسکتی ہے جب اصول مشورہ لازمی ہو ‘ اور پوری قوم کی بالغ النظری وہ قیمتی مقصد ہے جس کے لئے چھوٹے بڑے خسارے برداشت کئے جاسکتے ہیں ۔

لیکن اسلامی نظام کی سیاسی تصویر اور تشکیل اس وقت تک پوری نہیں ہوسکتی جب تک ہم اس آیت کے اگلے حصے پر غور نہ کریں۔ یہ بات عیاں ہے کہ یہ ضروری نہیں کہ مجلس شوریٰ کے نتیجے ہمیشہ قابل ترجیح اور دانشمندانہ فیصلہ ہوجائے ۔ آخرکارفیصلہ یہی ہوگا کہ کسی ایک بات پر توکل علی اللہ کرکے عمل شروع کردیاجائے۔ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ……………” اور جب کوئی آخری فیصلہ ہوجائے تو اللہ پر بھروسہ کرو ‘ اللہ کو وہ لوگ پسند ہیں جو اس کے بھروسے پر کام کرتے ہیں۔ “

شوریٰ کا خلاصہ یہ ہوتا ہے کہ مختلف آراء سامنے آجائیں اور مجلس میں جو آراء پیش ہوں ان سے ایک کو قبول کرلیا جائے ۔ جب کوئی فیصلہ ہوجائے تو اس وقت شوریٰ کا کام ختم ہوجاتا ہے اور اب فیصلے کے نفاذ (Execution) کا دور شروع ہوجاتا ہے ۔ اور اس تنقیدی مرحلے کے لئے بڑے پختہ عزم اور فیصلہ کن اقدام کی ضرورت ہے ۔ اس مرحلے پر اللہ پر بھروسے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اور معاملہ اب اللہ کے ہاں چلا جاتا ہے ۔ اللہ کی تقدیر کے سپرد ہوجاتا ہے ۔ اب یہ اللہ کی مشیئت کا کام ہوتا ہے کہ وہ کیا فیصلہ اور نتائج ظاہر کرتی ہے ۔ جس طرح رسول اکرم ﷺ نے اپنے ربانی انداز میں شوریٰ کا سبق پڑھایا۔ امت کو دکھایا کہ اظہار رائے کا انداز کیا ہوتا ہے اور فیصلے کے بعد اس کے نتائج کو کس طرح برداشت کیا جاتا ہے خصوصاً خطرناک حالات میں ۔ اسی طرح رسول ﷺ نے امت کے فیصلے ‘ کسی شورائی فیصلے کی تنفیذ کے سلسلے میں بھی سبق دیا۔ اور توکل علی اللہ کا انداز بھی سکھایا۔ اور اپنے آپ کو تن بتقدیر اللہ کے حوالے کرنے کا طریقہ بھی سکھایا ۔ حالانکہ واقعات کے رونما ہونے کا آپ کو اچھی طرح اندازہ تھا۔ واقعات کا رخ آپ کے علم میں تھا لیکن آپ نے مدینہ سے باہر نکل کر لڑنے کے فیصلے کی تنفیذ فرمادی ۔ آپ گھر میں داخل ہوئے اور زرہ اور خود زیب تن فرمائی ۔ اور آپ کو اچھی طرح علم تھا کہ وہ کہاں جارہے ہیں ؟ آپ اور آپ کے صحابہ کو کن مصائب اور مشکلات سے دوچار ہونا ہے ۔ یہاں تک کہ جب باہر لڑنے والے پرجوش لوگوں نے دوبارہ مشورہ دیا اور موقعہ فراہم کردیا کہ فیصلے کو بدل دیاجائے اور نبی ﷺ کے چہرہ مبارک کو پڑھ کر انہوں نے محسوس کرلیا کہ ان کے جوش و خروش نے رسول ﷺ کو باہر لڑنے پر مجبور کردیا ہے۔ حالانکہ آپ ایسا نہ چاہتے تھے اور انہوں نے دوبارہ اختیار آپ کو دے دیا کہ آپ مدینہ کے اندر لڑیں یا باہرلڑیں تو آپ نے اس پر دوبارہ غور کرنے کے موقع سے فائدہ نہ اٹھایا ۔ یہ کیوں ؟ اس لئے کہ آپ انہیں ایک سبق دینا چاہتے تھے ۔ آپ شوریٰ (Parliament) کے فیصلوں کی مثال قائم کرنا چاہتے تھے ۔ یہ چاہتے تھے کہ جب فیصلہ پختہ اور آخری ہوجائے تو پھر دوبارہ غور کے بجائے اس کا نفاذ چاہئے ۔ اللہ پر توکل کرنا چاہئے جو ہو ‘ سو ہو۔ آپ یہ بھی دکھانا چاہتے تھے کہ شوریٰ کا ایک ہی وقت ہوتا ہے ۔ فیصلے کے بعد تردد اور ڈانواں ڈول نہیں ہونا چاہئے ۔ دوبارہ غور کرکے از سر نوفیصلہ نہیں ہونا چاہئے ۔ اس لئے کہ اس طرح کوئی بات آخری نہ رہے گی ‘ فیصلے بار بار بدلیں گے اور دوبارہ غور کی اگر مثال قائم ہوجائے تو یہ سلسلہ ختم ہی نہ ہوگا ۔ بس شوریٰ (Parliament) کا فیصلہ ہو اور پھر نفاذ ہو اور توکل علی اللہ ہو اس لئے کہ اسے اللہ پسند کرتا ہے ۔ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِينَ……………” بیشک اللہ تعالیٰ اس پر بھروسہ کرنے والوں کو محبوب رکھتا ہے ۔ “

اور وہ صفت جسے اللہ پسند کرتے ہیں اور اس صفت سے متصف لوگوں کو محبوب رکھتے ہیں تو اہل ایمان کا فرض ہے کہ وہ صفت ان کے اندر بدرجہ کمال پائی جائے اور وہ اس کے لئے بےحد حریص ہوں بلکہ وہ مومنین کی صفت ممتاز ہونی چاہئے ۔ توکل علی اللہ اور سپردم بتومایہ خویش را ‘ اسلامی تصور حیات اور اسلامی زندگی کا خط توازن ہے ۔ اب معاملہ اس کائنات کی عظیم حقیقت کے سپرد ہوجاتا ہے۔ یہ حقیقت کہ آخری فیصلہ اللہ کے ہاں ہوگا ‘ اب وہ ہوگا جو وہ چاہے ۔

احد کے عظیم تجربات میں سے ایک عظیم تجربہ اور یہ ایک عظیم سبق تھا۔ یہ سبق امت مسلمہ کے لئے ہر اس دور اور ہر زمانے میں ایک قیمتی سرمایہ ہے ۔ یہ صرف ایک دور ہی کی بات نہیں ہے بلکہ ہر دور کے لئے ہے ۔