انا نحن نحيي الموتى ونكتب ما قدموا واثارهم وكل شيء احصيناه في امام مبين ١٢
إِنَّا نَحْنُ نُحْىِ ٱلْمَوْتَىٰ وَنَكْتُبُ مَا قَدَّمُوا۟ وَءَاثَـٰرَهُمْ ۚ وَكُلَّ شَىْءٍ أَحْصَيْنَـٰهُ فِىٓ إِمَامٍۢ مُّبِينٍۢ ١٢
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
٣

آیت 12 { اِنَّا نَحْنُ نُحْیِ الْمَوْتٰی وَنَکْتُبُ مَا قَدَّمُوْا وَاٰثَارَہُمْ } ”یقینا ہم ہی زندہ کریں گے ُ مردوں کو ‘ اور ہم لکھ رہے ہیں جو کچھ انہوں نے آگے بھیجا اور جو اثرات وہ اپنے پیچھے چھوڑ گئے ہیں۔“ انسان مرنے سے پہلے اپنی زندگی میں جو اچھے برے اعمال آگے بھیجتا ہے وہ ساتھ ہی ساتھ اس کے اعمال نامے میں درج ہوتے رہتے ہیں۔ لیکن انسان کے کچھ اعمال و افعال ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے اثرات اس کی موت کے بعد بھی اس دنیا میں رہتے ہیں۔ چناچہ یہاں پر ”آثار“ سے مراد انسان کے ایسے ہی کام ہیں۔ بہر حال انسان کو آخرت میں ان ”آثار“ کا بدلہ بھی دیا جائے گا۔ مثلاً اگر کسی شخص نے اپنی زندگی میں کسی ایسے نیک عمل کی بنیاد ڈالی جس کے اثرات دیر پا ہوں تو جب تک اس نیک کام کا تسلسل اس دنیا میں رہے گا ‘ اس کا اجر وثواب اس شخص کے حساب میں لکھا جاتا رہے گا۔ اسی طرح اگر کسی نے گناہ اور بےحیائی کے کسی کام کی بنیاد رکھی تو جب تک اس کام یا منصوبے کے منفی اثرات اس دنیا میں رہیں گے ‘ اس میں سے متعلقہ شخص کے حصے کے گناہوں کا اندراج اس کے اعمال نامے میں مسلسل ہوتا رہے گا۔ { وَکُلَّ شَیْئٍ اَحْصَیْنٰہُ فِیْٓ اِمَامٍ مُّبِیْنٍ } ”اور ہرچیز کا احاطہ ہم نے ایک واضح کتاب میں کررکھا ہے۔“ ”اِمَامٍ مُّبِیْنٍ“ سے مراد اللہ تعالیٰ کا علم قدیم ہے جسے سورة الرعد کی آیت 39 اور سورة الزخرف کی آیت 4 میں ”اُمّ الْکِتٰب“ کے نام سے بھی موسوم کیا گیا ہے۔