أنت تقرأ التفسير لمجموعة الآيات 35:27 إلى 35:28
الم تر ان الله انزل من السماء ماء فاخرجنا به ثمرات مختلفا الوانها ومن الجبال جدد بيض وحمر مختلف الوانها وغرابيب سود ٢٧ ومن الناس والدواب والانعام مختلف الوانه كذالك انما يخشى الله من عباده العلماء ان الله عزيز غفور ٢٨
أَلَمْ تَرَ أَنَّ ٱللَّهَ أَنزَلَ مِنَ ٱلسَّمَآءِ مَآءًۭ فَأَخْرَجْنَا بِهِۦ ثَمَرَٰتٍۢ مُّخْتَلِفًا أَلْوَٰنُهَا ۚ وَمِنَ ٱلْجِبَالِ جُدَدٌۢ بِيضٌۭ وَحُمْرٌۭ مُّخْتَلِفٌ أَلْوَٰنُهَا وَغَرَابِيبُ سُودٌۭ ٢٧ وَمِنَ ٱلنَّاسِ وَٱلدَّوَآبِّ وَٱلْأَنْعَـٰمِ مُخْتَلِفٌ أَلْوَٰنُهُۥ كَذَٰلِكَ ۗ إِنَّمَا يَخْشَى ٱللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ ٱلْعُلَمَـٰٓؤُا۟ ۗ إِنَّ ٱللَّهَ عَزِيزٌ غَفُورٌ ٢٨
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
٣

درس نمبر 203 ایک نظر میں

یہ سبق اس کائنات کی کتاب اور اللہ کی کتاب کے ایک اقتباس پر مشتمل ہے۔ کتاب کائنات کا مطالعہ اور اس کے خوبصورت اور عجیب صحائف پر ایک نظر ہے جو مختلف اقسام اور مختلف موضوعات سے متعلق ہیں۔ جن کے پھل قسما قسم ہیں ، جس کے پہاڑ رنگا رنگ ہیں۔ جن کے انسان ، حیوان اور زمین پر چلنے والے جانور مختلف النوع اور مختلف الاشکال ہیں۔ اس خوبصورت کائنات کا یہ عجیب مطالعہ بہت ہی دلچسپ ہے اور پوری کائنات اس کا موضوع ہے۔ پھر اللہ کی کتاب منزل کا مطالعہ اور اس کے اندر جو تعلیمات ہیں اور جو سچائیاں ہیں اور جو اس سے پہلے نازل ہونے والی کتابوں کی تصدیق و تائید کرتی ہے پھر امت مسلمہ کا سابقہ امتوں کا وارث بنایا جانا اور وارثوں کے درجے اور اہل ایمان کے لیے جو عفو و مغفرت اور انعامات تیار کیے گئے ہیں ۔ جنتوں کے مناظر اور جہنم کے مناظر اور کافروں کے حالات ، اور آخر میں یہ قرار داد کہ یہ سب کچھ اللہ کے علم کے مطابق ہوتا ہے

درس نمبر 203 تشریح آیات

27 ۔۔۔ تا۔۔۔ 38

الم تر ان اللہ۔۔۔۔۔۔ ان اللہ عزیز غفور (27 – 28) ” “

یہ اس کائنات کی ایک جھلک ہے۔ بتایا یہ جاتا ہے کہ کتاب اللہ کا سرچشمہ اور کتاب کائنات کا سرچشمہ ایک ہے۔ اس جھلکی میں پوری زمین کو دکھا دیا گیا ہے اور پوری زمین کے رنگ ڈھنگ ظاہر کیے گئے ہیں۔ پھلوں کے رنگ و اقسام ، پہاڑوں کے رنگ اور ان کی انواع ، لوگوں کے رنگ اور شکلیں ، حیوانات اور مویشیوں کی اقسام و انواع ، چند الفاظ کے اندر پوری زمین کے خدوخال ضبط کر دئیے گئے ہیں جس میں زندہ اور غیر زندہ سب چیزوں کو لپیٹ لیا گیا ہے ۔ چند الفاظ کے اندر خداوند قدوس کی اس نمائش کا نقشہ کھینچ دیا گیا ہے جو بہت ہی دلکش ہے اور یہ دلکشیاں پوری زمین پر پھیلی ہوئی ہیں۔

آغاز میں ہم دیکھتے ہیں کہ بارشیں ہو رہی ہیں۔ اور ان بارشوں کے نتیجے میں اس زمین پر رنگا رنگ پھل پیدا ہوتے ہیں۔ یہاں چونکہ مختلف رنگوں کی نمائش مقصود ہے اس لیے پھلوں کے ذکر کے بجائے ان کے رنگ دکھائے جاتے ہیں۔

فاخرجنا بہ ثمرت مختلفا الوانھا (35: 27) ” اور پھر اس کے ذریعے ہم طرح طرح کے پھل نکال لاتے ہیں “۔ پھلوں کے رنگ بھی درحقیقت ایک عظیم نمائش گاہ ہے اور اس میں رنگوں کی جو اسکیم ہے ، اس کا کوئی حصہ ، دنیا کے تمام نقاش مل کر بھی تیار نہیں کرسکتے۔ ایک قسم کے پھلوں کا رنگ دوسری اقسام سے مختلف ہے۔ بلکہ ایک قسم کے پھلوں میں بھی مختلف رنگ ہیں اور ایک قسم کا رنگ دوسروں سے مختلف ہے۔ اور ہر دانے کا رنگ بھی دوسروں سے مختلف ہے۔

اور پھلوں کے رنگ کے بعد پھر پہاڑوں کے رنگ ، اور پھلوں کے رنگوں اور پہاڑوں کے رنگوں کے درمیان بظاہر کوئی ربط نظر نہیں آتا لیکن اگر حقیقی مطالعہ اور تحقیق کی جائے تو ایک قدرتی ربط موجود ہے۔ پہاڑوں کے رنگوں اور پھلوں کے رنگوں کے درمیان ایک قسم کا ربط موجود ہے۔ بلکہ پتھروں اور پہاڑوں کے رنگ بھی بعض اوقات پھلوں کے رنگوں جیسے ہوتے ہیں۔

ومن الجبال جدد۔۔۔۔۔ وغرابیب سود (35: 27) ” پہاڑوں میں سفید ، سرخ اور گہری سیاہ دھاریاں پائی جاتی ہیں جن کے رنگ مختلف ہوتے ہیں “۔ جدد کے معنی راستے اور شاخیں ہیں یعنی دھاریاں۔ آیت میں یہ کہا گیا ہے کہ ” جدد بیض “ کا رنگ بھی مختلف ہے اسی طرح ” جدد حمر “ کا رنگ بھی مختلف ہے۔ یعنی ہر قسم یعنی سفید و سرخ کا رنگ بھی مختلف ہے اور بعض دھاریاں شدید درجے کی سیاہ ہیں۔

یہاں اس بات کی طرف توجہ دی جاتی ہے کہ ایک رنگ کے پتھر مثلاً سرخ وسفید پھر آپس میں مختلف ہیں۔ پہاڑوں اور پتھروں کے یہ مختلف رنگ ، پھلوں کے مختلف رنگوں کے بعد ذکر ہوئے۔ اس سے انسان کے دل میں حرکت پیدا ہوتی ہے اور ذوق جمال تیز ہوجاتا ہے۔ یوں یہاں جمال اور خوبصورتی کو بھی تجریدی آرٹ کی شکل میں پیش کیا گیا جو بیک وقت پتھروں میں بھی ذوق نظر کے لیے دامن کش ہے اور پھلوں میں بھی ذوق نظر کو کھینچتا ہے جبکہ پھلوں میں اور پتھروں میں بظاہر کوئی نسبت نہیں ہے۔ لیکن تجریدی ذوق جمال ہر جگہ خوبصورتی کو دیکھ لیتا ہے اور قرآن کی یہ خصوصیت قابل التفات ہے۔

پھر لوگوں کے رنگ ؟ یہ انسانوں کے عام رنگوں تک محدود نہیں ، بلکہ ایک رنگ کے مختلف لوگوں کے رنگ اور ہر ایک کی بناوٹ کے درمیان فرق ہے بلکہ دو لوام بھائی بھی رنگ میں مختلف ہوتے ہیں۔ انسانوں سے آگے پھر پرندوں ، چرندوں اور درندوں کے رنگ ، دابہ ہر حیوان کو کہا جاتا ہے جو زمین پر چلتا ہے۔ انعام اونٹ ، گائے ، بھیڑ اور بکریوں کے لیے آتا ہے۔ دواب کے لفظ کے بعد انعام کا خصوصی ذکر اس لیے کیا کہ انسان ان سے زیادہ مانوس ہے۔ ان کے رنگوں کی اسکیم بھی پھلوں اور پتھروں کی طرح حیران کن ہے۔

اس کائنات کے رنگوں کا یہ البم عجیب و غریب ہے۔ قرآن کریم اس کی ورق گردانی کرتا ہے اور انسان کو متوجہ کرتا ہے کہ چشم بینا کے ساتھ رنگوں کی اس کائناتی اسکیم پر غور کرے۔ صرف اہل علم اور اہل ذوق ہی اس سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں اور عبرت حاصل کرسکتے ہیں۔ صرف اہل علم ہی حکمت اور قدرت خداوندی کو پاکر اللہ کی عظمت کا خیال کرکے اس سے ڈرسکتے ہیں۔

انما یخشی اللہ من عبادہ العلموا (35: 28) ” حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے بندوں میں سے صرف علم رکھنے والے لوگ ہی اس سے ڈرتے ہیں “۔ کتاب کائنات کے جو اوراق قرآن مجید نے الٹے ہیں وہ اس کے بہت کم اوراق ہیں اور علماء دراصل اس کائنات پر غور کرتے رہتے ہیں ۔ اس لیے علماء ہی دراصل اللہ کی حقیقی معرفت رکھتے ہیں۔ وہ اللہ کی صفتوں کے آثار سے زیادہ واقف ہوتے ہیں اور اللہ کی معرفت کا ادراک اس کی قدرت کے آثار سے ملاحظہ کرتے ہیں۔ اللہ کی تخلیق کے عجائبات کو دیکھ کر اس کی عظمت کا شعور رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اللہ سے صحیح معنوں میں ڈرتے ہیں۔ وہ اس کی حقیقی بندگی اس کے خوف کی وجہ سے کرتے ہیں۔ اللہ کے بارے میں ان علمائے کائنات کا شعور مہمل اور پیچیدہ شعور نہیں ہوتا بلکہ اللہ کے بارے میں ان کو گہری معرفت حاصل ہوتی ہے۔

قرآن کے یہ صفحات اللہ کی کتاب کا نمونہ ہیں جبکہ رنگ اور دوسرے کائناتی عجائبات اس کائنات کا نمونہ ہیں اور ان کی حقیقت دراصل علمائے کائنات ہی مانتے ہیں ۔ وہ لوگ جو حقیقی علم کتاب رکھتے ہیں اور جو حقیقی تکوینی علم بھی رکھتے ہیں۔ جو اللہ کی معرفت براہ راست رکھتے ہیں۔ ایسا علم جو ان کے دل کا شعور ہو اور جس کے ذریعہ ان کا دل متحرک ہو۔ جس کے ذریعہ وہ اس کائنات کے خوبصورت رنگوں کو اچھی طرح دیکھ سکتے ہیں ، اور ان سے خوشی حاصل کرسکتے ہیں اور اللہ کی قدرت کاملہ کا مطالعہ کرسکتے ہیں۔

اس کائنات کی تشکیل و تخلیق میں حسن و جمال کا عنصر اصل مقصود ہے اور اس حسن کا کمال یہ ہے کہ ہر چیز اپنے فرائض منصبی اپنے طبیعی جمال اور حسن کے واسطے سے ادا کرتی ہے۔ یہ پھول اپنے حسن و جمال اور اپنی نہایت ہی اچھی خوشبو کی وجہ سے شہد کی مکھیوں اور پروانوں کو اپنی طرف کھینچتے ہیں۔ مکھیوں اور پروانوں کی ڈیوٹی پھولوں کے حوالے سے یہ ہے کہ یہ مادہ اور نر پھولوں کے درمیان ملاپ کرائیں تاکہ پودوں کے ساتھ پھل لگیں۔ یوں یہ پھول اپنی خوبصورتی اور حسن و جمال کے ذریعے یہ کام کرواتے ہیں۔ مادہ اور نر کے درمیان حسن و جمال ایک دوسرے کے لیے باعث کشش ہوتا ہے اور اس طرح دو صنفیں اپنا اپنا فریضہ منصبی اور طبیعی ادا کرتے ہیں۔ یوں تمام اشیاء فریضہ طبیعی حسن و جمال کے ذریعے سر انجام دیتی ہیں۔ پس جمال اس کائنات کی اسکیم میں مقصود بالذات ہے اور یہی وجہ ہے کہ کتاب کائنات کے حسن و جمال کے اظہار کیلئے کتاب الٰہی جابجا انسانی نظر کیلئے دامن کش ہے۔

ان اللہ عزیز غفور (35: 28) ” بیشک اللہ زبردست اور درگزر فرمانے والا ہے “۔ وہ زبردست ہے جس نے یہ اشیاء پیدا کیں اور وہ جزاء و سزا بھی دے سکتا ہے۔ وہ غفور ہے اور جو لوگ اس کی اطاعت اور خوف و خشیت میں تقصیر کرتے ہیں وہ ان کو معاف کرتا ہے۔ نیز جو لوگ اللہ کی صنعت کے عجائبات میں غور نہیں کرتے وہ ان کو بھی معاف کرتا ہے۔