فسقى لهما ثم تولى الى الظل فقال رب اني لما انزلت الي من خير فقير ٢٤
فَسَقَىٰ لَهُمَا ثُمَّ تَوَلَّىٰٓ إِلَى ٱلظِّلِّ فَقَالَ رَبِّ إِنِّى لِمَآ أَنزَلْتَ إِلَىَّ مِنْ خَيْرٍۢ فَقِيرٌۭ ٢٤
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
٣

آیت 24 فَسَقٰی لَہُمَا ثُمَّ تَوَلّٰٓی اِلَی الظِّلِّ ”حضرت موسیٰ علیہ السلام بہت توانا اور قوی تھے۔ ان کی مردانہ غیرت نے گوارا نہ کیا کہ وہ لڑکیاں یوں بےبسی کی تصویر بنی کھڑی رہیں۔ چناچہ وہ کنویں کی طرف بڑھے اور سب چرواہوں کو پیچھے ہٹا کر ان کی بکریوں کو پانی پلانے کا انتظام کردیا۔ اس کے بعد وہ لڑکیاں اپنی بکریوں کو لے کر چلی گئیں اور آپ علیہ السلام ایک درخت کے سائے میں جا کر بیٹھ گئے۔ تب آپ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی :فَقَالَ رَبِّ اِنِّیْ لِمَآ اَنْزَلْتَ اِلَیَّ مِنْ خَیْرٍ فَقِیْرٌ ”یہ انتہائی عاجزی کی دعا ہے۔ ہم سب کو یہ دعا یاد کر لینی چاہیے۔ یہاں ”فَقِیْر“ کے لفظ سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی انتہائی احتیاج کی جو تصویر سامنے آتی ہے ‘ اس کو تھوڑی دیر کے لیے ذرا اپنے تصور میں لائیے ! ناز و نعم میں پلا بڑھا ایک شخص جس کی پرورش شاہی محل میں ہوئی ‘ اچانک اپنا سب کچھ چھوڑ کر خالی ہاتھ تن تنہا ‘ جان بچا کر مصر سے نکلتا ہے ‘ نہ معلوم کیسی کیسی مشکلات اور تکالیف اٹھا کر صحرائے سینا عبور کرتا ہے ‘ پھر وہ ایک ایسے علاقے میں پہنچتا ہے جہاں اس کا نہ کوئی شناسا ہے نہ پرسان حال ‘ نہ سر چھپانے کی جگہ اور نہ روٹی روزی کا کوئی وسیلہ۔ گویا غربت اور محتاجی کی انتہا ہے !